کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے
کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے
پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے
اب اِذن چاہیے ترا ہر بات کے لیے
کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو
مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے
انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا
آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے
صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک
اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے
پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر
شاہد ہمارا ساتھ تھا اِک رات کے لیے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...