مٹی کا اک غبار جو سوئے فلک گیا
اک بار تو خود اپنی طرف میرا شک گیا
سایہ تھا اُس پہ وصل کی خواہش کے خوف کا
میں نے چھوا تو غنچہ ٔ نو رَس چٹک گیا
دیتی وہ کیا جواب مرے اشتعال کا
بس یہ ہوا کہ شانے پہ آنچل ڈھلک گیا
چاروں طرف سے خون کے چشمے ابل پڑے
سایہ مرے وجود کے اندر سرک گیا
میری بھی تھوڑی حوصلہ افزائی ہو گئی
جاتے ہوئے وہ میرا بھی شانہ تھپک گیا
احمدؔ میں پہلے عشق کو سمجھا تھا آخری
یہ سلسلہ چلا تو بہت دور تک گیا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ادا پریوں کی، صورت حور کی، آنکھیں غزالوں کی غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے وہ... -
محمد علوی ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں...