احمد حسین مجاہد …… مٹی کا اک غبار جو سوئے فلک گیا

مٹی کا اک غبار جو سوئے فلک گیا اک بار تو خود اپنی طرف میرا شک گیا سایہ تھا اُس پہ وصل کی خواہش کے خوف کا میں نے چھوا تو غنچہ ٔ نو رَس چٹک گیا دیتی وہ کیا جواب مرے اشتعال کا بس یہ ہوا کہ شانے پہ آنچل ڈھلک گیا چاروں طرف سے خون کے چشمے ابل پڑے سایہ مرے وجود کے اندر سرک گیا میری بھی تھوڑی حوصلہ افزائی ہو گئی جاتے ہوئے وہ میرا بھی شانہ تھپک گیا احمدؔ میں پہلے عشق کو سمجھا تھا…

Read More