حساب کرنے کی کوششوں میں ہم اس کی باتوں میں آگئے ہیں
نئے طلب کردہ سب خسارے پرانے کھاتوں میں آگئے ہیں
گریز کرتی ہوئی یہ ٹہنی ابھی جو خود میں سمٹ رہی تھی
ذرا سی کھینچی ہے اپنی جانب تو پھول ہاتھوں میں آگئے ہیں
اے شب گزیدو! ہماری نیندیں حرام ہونا الگ ستم ہے
اداس شاموں کے سلسلے بھی ہماری راتوں میں آ گئے ہیں
ہم ابر پارے دھنک کی زد میں کچھ ایسے آئے کہ ہائے ہائے
گھرے ہوئے ہیں چہار رنگوں میں اور ساتوں میں آ گئے ہیں
سخن سخن میں یہ کس کے ہونٹوں کا زنگ زائل ہوا ہے اظہر
ورق بیاضوں کے کھل گئے ہیں قلم دواتوں میں آگئے ہیں