تیرگی بلا کی ہے، میں کوئی صدا لگاؤں
ایک شخص ساتھ تھا، اُس کا کچھ پتا لگاؤں
بہتے جانے کے سوا، بس میں کچھ نہیں تو کیا
دشمنوں کے گھاٹ ہیں، ناؤ کیسے جا لگاؤں
وہ تمام رنگ ہے، اس سے بات کیا کروں
وہ تمام خواب ہے، اُس کو ہاتھ کیا لگاؤں
کچھ نہ بن پڑے تو پھر ایک ایک دوست پر
بات بات شک کروں، تہمتیں جُدا لگاؤں
منظر آس پاس کا ڈوبتا دکھائی دے
میں کبھی جو دور کی بات کا پتا لگاؤں
ایسی تیری بزم کیا، ایسا نظم و ضبط کیا!
میرے جی میں آئی ہے آج قہقہہ لگاؤں
یہ ہے کیا جگہ میاں، کہہ رہے ہیں سب کہ یاں
کچھ کشاں کشاں رہوں، دل ذرا ذرا لگاؤں