شہاب صفدر ۔۔۔ فلک گرانے زمیں سے شروع ہو جاؤ

فلک گرانے زمیں سے شروع ہو جاؤ
اٹھاؤ تیشہ کہیں سے شروع ہو جاؤ

کسی گماں کو ہے ممکن بنایا جا سکتا
بس ایک بار یقیں سے شروع ہو جاؤ

حساب ِ شاہ اگر کر سکو تو بسم اللہ
فقیرِ گوشہ نشیں سے شروع ہو جاؤ

سروں کی فصل ہے اور بے دریغ کاٹنی ہے
چلو یسار و یمیں سے شروع ہو جاؤ

خود اپنے ہاتھ سے بھرنا ہے پیٹ دوزخ کا
نکل کے خلدِ بریں سے شروع ہو جاؤ

سفر بخیر، ہے انجامِ  کار نیک تو پھر
جہاں کھڑے ہو وہیں سے شروع ہو جاؤ

پڑھو” بیاضِ”  محبت ٹھہر ٹھہر کے شہاب
غزل کے بابِ حسیں سے شروع ہو جاؤ

Related posts

Leave a Comment