عزیز اعجاز ۔۔۔ بازوؤں کی ٹہنی پر جھولتا بدن اُس کا

بازوؤں کی ٹہنی پر جھولتا بدن اُس کا
ہم کبھی نہیں بھولے والہانہ پن اُس کا

بھینی بھینی خوشبوئیں چار سو بھٹکتی ہیں
ذکر چھڑ گیا شاید پھر چمن چمن اُس کا

میں بھٹک بھٹک جاؤں جب نہ راستے پاؤں
بے پناہ تاریکی ،غم کرن کرن اُس کا

بزمِ ناز میں جا کر ہونٹ کاٹتے رہنا
بات کس سے ہوتی ہے، کون ہم سخن اُس کا

درخورِ کرم اُس نے مدتوں ہمیں سمجھا
کیا بھلا بساط اپنی تھا یہ حسنِ ظن اُس کا

ایک نام ہی لب پر بار بار کیوں آئے
اے فسانۂ ہجراں! تذکرہ نہ بن اُس کا

جسم کے تناسب سے شاعری ٹپکتی ہے
میر کی غزل اعجاز اور بانکپن اُس کا

Related posts

Leave a Comment