سیڑھی نمبر ۲۴۲ ۔۔۔۔۔۔ شاہین عباس

ملاقات رکھو،
کسی ملگجے کے حجابات میں
جشن حاجات رکھو وہیں پر
جہاں روشنی کم ہے اور زندگی ہے زیادہ
منارے کا دو سو بیالیسو اں زینہ

چڑھائی، چڑھائی، چڑھائی
اکٹھے کئی سو پہر کی کسی دوپہر میں
پسینے کے ہم ذات جھرنے
جبینوں سے، بغلوں سے
کولھوں سے، رانوں سے نکلیں
تو دو سو بیالیس کی گنتی پہ رک جائیں ہم
اور سمجھ لیں بہائو مکمل ہوا
فرض کر لیں کہ اَب نیچے اوپر کوئی بھی نہیں
کوئی تاریخ ہے اور نہ جغرافیہ

کوئی تمثیل تلووں سے ، تسموں سے
باندھی ہوئی
کوئی تاویل ٹانکی ہوئی سر کے بالوں میں
اور مانگ پھنکارتی
کوئی ، کچھ بھی نہیں، فرض کرلیں
فقط ایک میں ایک تم ہو
جو راوی سے پہلے، 
روایت سے پہلے کا دھن ہیں!

قدم تا قدم پائدانوں کے جوکر
ہمیں ہم
اچھلتے ہوئے، آگے پیچھے
بدن سے بدن کھٹکھٹاتے ہوئے
تھپتھپاتے ہوئے چوکھٹے چاروں کاندھوں کے
یک دم اِسی ایک سیڑھی پہ آکر رکے تھے
تو چور اَپنی چوری پہ ہنسنے لگے تھے
کراہت ، کراہت سے باہم ملائی تھی!
ابکائی حرفِ غلط کی طرح سے مٹا دی تھی
نیت سے نیت کی گرہیں کسی تھیں
اور اُن پانچ کپڑوں کو
تین اَور دو کفنیوں کو
برابر میں لہرا دیا تھا، نہ جانے کہاں
برجیوں سے پرے‘چلمنوں سے اُدھر
اور اِدھر
کوئی اترائی تھی اور نہ اونچائی تھی
دوپہر تھی مساوی مساوی
یہ دو سو بیالیسویں سیڑھی تھی حاوی
اور اب جب
ایجنڈا ملاقات کا آ چکا ہے
کبھی تو
کہیں تو ملاقات رکھو !

Related posts

Leave a Comment