نظم میں خالی جگہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں
ہم نہیں بھر سکے ہیں شکم
شاعری کی قسم
شاعری کا شکم!
ہم نہیں کرسکے حرف اور حرف کو
خطّ ِمابین کے ماسوا سے بہم
نظم کو ہم خدا سے ملانے چلے
اپنے ڈھب کی تجلی میں
مصرع اٹھاتے ہوئے
اپنی دھج کے یہ سکتے ‘ یہ جھٹکے
نگارندہ متن و معانی کے
مٹی کے‘ پانی کے سب حاشیے
حلق سے تا ورق
سالمیت ادق غایت و مد ّعا
شہریت کی قضا
آدمی کی قسم
آدمی کا یہ موجود
اور آدمی کے خدا کا عدم
خالی خالی سا موجودہے
خالی خالی عدم
یہ شکم ہے کہ بھرتا نہیں
ہم بھرائی پہ مامور‘ مزدور شاعر
سخن بھر کے لاتے ر ہے
کائناتوں کی چھلنی کو اوندھا کیے
سر کو نیوڑھائے ‘
آنکھوں کو موندے ہوئے
تیرے روندے ہوئے
یہ سرھانے دھرا ۔۔۔۔ مشربِ منتہا
کچھ پیا، کچھ انڈیلا تو سمجھے
کہ نشّہ مکمل ہوا
سطر خیرات کی، نظم میں آ گئی
سطر خیرات کی
مستیاں لے اُڑیں ایڑیوں کے نشاں
پنجہِ نابلد کی درستی میں کیا ماس ‘
کیا ہڈیاں
کتنے کِردار تھے
سارے کِرداروں سے اِستفادہ کیا
ہم کہ ماخوذ متنوں کو محفوظ کرنے
کی حالت میں تھے
غزوہ غزوہ ہو اکے دبائو پہ
غائب نَوا کے بہائو میں آئے ہوئے
پیش و پس کی عبارت میں لڑتے ہوئے
حرف اور حرف کے درمیانی خلائوں
میں مارے گئے
شعر کا ایک اپنا حرم تھا
حرم کیا تھا ‘ چوکور چوکی تھی
چوکی کے اِس رُخ پہ کیا جانے ، کیا ہو گیا
نظم کا ایک اپنا خُدا تھا‘
فنا ہو گیا!