کٹھور راہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کٹھور راہیں
جو الجھے دھاگوں کا ایک گچھا سا بن گئی ہیں
نہ ان کو رنگوں کی تیز برکھا سے کچھ غرض ہے
وہ تیز برکھا جو منہ اندھیرے
کسی پجارن کے کپکپاتے سفید ہونٹوں پہ ناچتی ہے
نہ ان کی منزل وہ شام غم ہے جو ایک میلا سا طشت لے کر
مسافروں سے لہو کے قطروں کی بھیک رو رو کے مانگتی ہے
دہکتے تارے حزیں دعائیں لرزتے ہاتھوں سے بانٹتی ہے
کٹھور راہیں تو آگے بڑھ کر ادا دکھا کر پلٹ گئی ہیں
پلٹ کے پہلو بدل گئی ہیں
گھنیری شب اپنی کالی کملی میں گم کھڑی ہے
یہ سوچتی ہے
بھنور کی بے نور چشمِ تر میں
کوئی سا سیدھا سفید رستہ ابھر کے چمکے
تو شب کا راہی ادھر کو لپکے
یہ شب کا راہی
سمے کے دھارے پہ بہتے بہتے بھنور کی صورت ابھر گیا ہے
ہزار راہوں میں گھر گیا ہے