مکینک کہاں گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھائو شدید تھا۔اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پائوں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہاتھا۔آنکھیں اٹھانا اس تربیت کے خلاف تھاجواس کی طبیعت اورمزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔وہ آنکھیں اٹھاکر باپ کے سامنے گستاخی کامرتکب نہیں ہوناچاہتاتھا۔باپ اسے تھپڑ دے مارتاتو وہ سہہ جاناآسان تھا ۔لیکن باپ کی آنکھ میں اُترا غصہ اس کے وجودکوریزہ ریزہ کر گیا۔اپنے وجودکے ریزے چن کردوبارہ سانس بحال کر کے وہ کہیں نکل جاناچاہتاتھا لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔باپ کے غصے کو سہتے سہتے وہ جیناتوسیکھ گیا لیکن مجروح عزتِ نفس کی کرچیاں رات میں اس کے لیے باعثِ آزار ہوجاتیں۔ وہ سونے کو بسترپرلیٹا ۔پورے بستر پر عزتِ نفس کی کرچیاں کانٹوں میں بدل جاتیں ۔
اس نے کن اکھیوں سے ماں کودیکھا۔ ماں کے چہرے پرراکھ کے سوا کچھ نہیں تھا۔اس کی آنکھ میں آنسو اترے لیکن وہ ماں کے لیے ان کو پی گیا۔اسے خبر تھی اس کے آنسو ماں کی پوری رات کی نیند چھین لیں گے۔وہ نہیں چاہتاتھا کہ اس کی ماں کی نیند میں کوئی رخنہ پڑے۔اسے باپ بھی بہت اچھا لگتاتھا لیکن؟وہ سوچتا‘ قصورشایدکسی کابھی نہیں نکلتا۔لیکن یہ روزکی ڈانٹ کیوں میرامقدرہے؟ اس کے اندربہت سے چہرے بسے ہوئے تھے۔ان چہروں میں ایسے چہرے اسے بہت بھاتے جن پر مسکراہٹ کا موسم رہتاتھا۔ایک چہرہ مسجد کے مولوی صاحب کاتھا۔نورانی چہرے والے مو لوی صاحب سے اسے محبت اور گہری عقیدت تھی۔ان کے لہجے کی ملائمت اسے کئی دن شانت رکھتی ،دھیمالہجہ، بردباری، تحمل، اندازِ گفتگو میں ٹھہرائو۔وہ سوچتا میراباپ ایساکیوں نہیں؟اسے جمعہ کا وہ خطبہ یادتھا جو اس کے وجودمیں تحلیل ہوگیا۔مولوی صاحب نے زور دے کر سمجھایاتھا کہ والدین کے سامنے اولاد کی آواز پست رہناچاہیے ۔اُف تک کی ممانعت بھی اس کے ذہن میں محفوظ تھی۔وہ کالج سے گھر لوٹتے ہوئے راستے ہی میں ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ وہ آدھا ادھورا گھرمیں سہماہوا داخل ہوتا۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی سماعت پرانگارے برسنے لگتے۔
یہ نالائق ہے پرلے درجے کا،غبی، کندذہن، اس کی کھوپڑی میں بھس بھراہے، اس نے میرے خواب مٹی میں ملادیے ہیں۔
دھیرے بولیں ۔۔۔ ہمسائے؟
تو بک بک نہ کر‘ زبان کھینچ لوں گا تیری۔
اس کی ماںسہم گئی۔
بابا ۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ بات یہ ہے!
مت بھونک۔
آج توآپ ہتھے سے اکھڑگئے ہیں۔اس معصوم کی بات تو کم ازکم سن لیں –
بک جوبکناہے۔
بابا ۔۔۔ میں جوپڑھتا ہوں وہ یاد نہیں رہتا۔
دل لگاکر پڑھے تویادرہے نا۔ اخترصاحب کے بیٹے کاداخلہ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہورمیں ہوگیا۔ وہ اپنے رحیم صاحب کی بیٹی تیری کلاس فیلوتھی۔ وہ نشترمیڈیکل کالج ملتان میں پہنچ گئی ‘فیاص صاحب کا بیٹا انجینئرنگ میں چلاگیا اورتو ۔۔۔ تو ۔۔۔ دفعہ ہوجامیرے گھرسے۔۔۔!
وہ آنسو جو اس نے ماں کی نیندکے ڈرسے روک رکھے تھے دہلیزسے نکلا تو مٹی نے چن لیے۔ وہ مسجد گیا، مولوی صاحب نہیں تھے۔اسے یہ یادنہیں تھا،وقت کون سا ہے۔اس نے وضوکیا،دونفل پڑھے، مسجد کے صحن میں اکڑوں بیٹھاسوچتارہا، میں بابا کو کیسے سمجھائوں۔مجھے واقعی سبق یاد نہیں ہوتا۔رات گئے تک جاگ کرمیں نے امتحان کی تیاری کی۔مجھے توپاس ہونے کی بھی امیدنہیں تھی ۔یہ اللہ کا کرم ہے کہ میں ایف ایس سی تھرڈڈویژن میں پاس تو کر گیا۔
میں بابا کے دکھ کیسے کم کروں؟
میرا باپ خواب کیوں دیکھتاہے ۔اس اوپر والے نے سب کو ایک جیسا پیدا نہیں کیا۔قابلیت بھی ایک جیسی عطانہیں کی۔رزق کی تقسیم بھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔شام تک ماں مجھے گھر واپس بلوا تو لے گی لیکن اب اس وقت میں کیاکروں ۔کہاں جاؤں؟
نمازِمغرب کے بعداس نے مولوی صاحب کواپنی کتھا من وعن سنائی ۔مولوی صاحب اس کی باتیں انہماک سے سنتے رہے ۔۔۔
بیٹا ۔۔۔تمھیں کوئی ہنرسیکھنے کاشوق ہے؟
جی ۔۔۔!
الیکٹرانک۔
کسی دکان پربات کروں؟
میرا ایک دوست ہے جی‘ میں اس کی دکان پر بیٹھ سکتا ہوں۔
تم کل سے دکان پر بیٹھنا شروع کردو لیکن کام میں لگن ‘دلجمعی لازمی شرط ہے ‘ اللہ کریم ہے ۔
لیکن مولوی صاحب ۔۔۔ بابا ۔۔۔؟
تمھارے بابا کو میں سنبھال لوں گا
(۲)
سورج ان کوارٹروں سے کنی کتراکے گزرتاتھا۔سردیوں میں دھوپ کی قلت ہونے سے ان کوارٹروں کے مکین گلی میں نکل بیٹھتے۔مرد ڈیوٹی پرجاتے تو عورتیں گھر کے کام نمٹاکر کشادہ گلی میں چارپائیاں ڈال کربیٹھ جاتیں اورکچرکچر باتیں کرتیں‘سبزی کاٹتیں‘ کوئی نومولودکودودھ پلانے کے لیے گودمیں لیتی تو دوسری اسے یہ سمجھانا نہ بھولتی کہ دوپٹہ ٹھیک کرلو‘ یہ گلی ہے ۔وہ نمازِفجرکے بعدگھرکے چھوٹے موٹے کام نمٹاکرنکل جاتا۔ کام لگن سے سیکھ رہا تھا۔اس نے اپنے آپ کو پرزوں میں گم کردیا۔ وہ ایک ایک چیز کے بارے پوچھتا۔۔۔
ایک روزدوپہر کے کھانے پراس کے دوست نے کہا’’یارتمھاراشوق قابلِ رشک ہے۔‘‘
ہاں یار میرا ایک تجربہ ہے۔۔۔
تمھیں آئے ہوئے کتنے روزہوئے ہیں ،تجربہ کیسا؟
یارزندگی کے بارے میں بات کررہاہوں ۔۔۔
یہ عمراورتجربہ؟
تجربے کا عمرسے کیاتعلق؟ تجربہ عمرپرمنحصرہوتاتوسترہ سالہ محمدبن قاسم کی بجائے کسی بوڑھے جہاں دیدہ جرنیل کے سپردفوجوں کی کمانڈہوتی ۔وقت سکھادیتاہے،وقت معلم ہے،کوئی لمحوں میں پالیتا ہے،کوئی عمریں رول کربھی خالی رہتاہے۔
یارتم تقریرنہ جھاڑو،تجربہ بتائو۔
تجربے کاتعلق چولھے سے ہے ۔۔۔
انھی الٹی سیدھی سوچوں کی وجہ سے تمھاری ایف ایس سی میں تھرڈ ڈویژن آئی ہے۔اب بولوبھی!
یارمیں نے اس زمین پرشعورکی آنکھ کھلنے پر جومنظر دیکھے اس میں ایک منظر بہت کرب ناک تھااوروہ تھا اپنے حصے کا بوجھ ڈھونا۔میں نے دیکھا ہے ہرانسان کواپنے حصے کا بوجھ خود ڈھونا ہوتاہے ۔اپنی زندگی کا رتھ خودکھینچنا ہوتا ہے،کوئی کسی کےعمربھر کام نہیں نبھاسکتا‘انسان قلاش ہوتو کوئی صاحبِ ثروت دوست، رشتہ دار،دوچار بارتو مددکردے گا لیکن یہ جوروزکاچولھا ہے نا…یہ خود جلاناپڑتاہے۔ساری عمرکے لیے چولھے کاایندھن کوئی فراہم نہیں کرتا۔سبزی، گوشت، پیاز،دوائی، جوتی ،کپڑا،دوا دارو،خوشی غمی کے اخراجات سب آدمی کوخود نبھانا ہوتے ہیں۔انھیں کوئی خوشی سے نبھائے یابوجھ سمجھ کر گھسیٹے، گھسیٹناخودہی کو ہوگا۔
یار بات تو تیری دل کولگتی ہے۔
اس لیے میں اپنے پائوں پرکھڑا ہوناچاہتاہوں۔
لیکن تیرے باباکے خواب؟
زندگی خوابوں کے سہارے بسر نہیں ہوتی۔ ہرآدمی اپنامقدر لے کرپیداہوتاہے۔
تم کیاسمجھتے ہو،تمھارامقدرکیاہے؟
مکینکی ۔۔۔ مجھے یقین ہے، میرے اللہ نے میری روزی اسی میں رکھی ہے۔
اگرکہوتوساتھ والی دکان خالی ہورہی ہے، بات کروں۔
یار ۔۔۔ میں اکیلے دکان چلالوں گا کیا؟
یارہمت پکڑو۔
اس نے ہمت کی چادرکاکونامضبوطی سے پکڑلیااورچندروز میں دکان سنبھال لی۔اس کی ماں نے جورقم بیٹی کی شادی کے لیے پس اندازکی تھی باپ سے چوری اسے پکڑائی اوروہ ٹولز اور دکان کا سامان خرید لایا۔
بیٹا ۔۔۔کرایہ کتنا ہے دکان کا؟
ماں چارسو روپے ۔۔۔!
اتنانکل آئے گاکیا؟
ماں دعاکرنا۔
(۳)
یہ ٹیلی ویژن ہے ۔۔۔ ایک شخص نے کندھے پر سے کپڑے میں لپٹا ٹیلیویژن اس کی ورکنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
جی اسے مرمت کرناہے۔ چلتے چلتے بندہوگیا ہے۔جانے کیاہوا؟
کل تک لے جانا۔۔۔
ہمیں رات تک چاہیے۔
اورکام بھی دینا ہے جی ۔۔۔!
کوشش کرویار، ہم مزدورآدمی ہیں۔ دن بھرمزدوری کرتے ہیں۔ رات میں ایک آدھ فلم دیکھ کرسوتے ہیں۔ یہی تو اپنا رونق میلہ ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلامشکل کام تھا‘تین گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعداس نے فالٹ ڈھونڈ لیا ،فالٹ دورکرنے کے بعداس نے ٹی وی آن کیا تواسے عجیب سی خوشی نے گھیرلیا،اسے لگا وہ ہوامیں اڑ رہا ہے، اسے اپنے اندراعتماداورطمانیت اترتی محسوس ہوئی۔
’’یہ میں نے ٹھیک کیا ہے ۔کیامجھے کام آگیاہے؟میں اپناکاروبار الگ سے چلاسکتا ہوں ؟میں نالائق نہیں ہوں ۔۔۔کندذہن اورغبی بھی نہیں لیکن بابامجھے ایساکیوں کہتاہے؟بابا بے قصور ہے۔ قصورمعاشرے کا ہے۔لوگ باباسے کہتے ہوں گے تیرا بیٹا نالائق ہے۔باباتوسیدھاسادہ ہے، آخر کس کا جی نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد ۔۔۔؟وہ خوش تھا۔
مہینہ گزرنے پراس نے حساب کیا۔ دکان کاکرایہ، بجلی، کھانے اورچائے کاخرچہ نکال کر اسے ایک ہزار روپے بچ رہا۔ یہ اس کی اپنی محنت تھی۔ جب وہ گھرکوچلا اس کے پائوں زمین پرنہیں ٹک رہے تھے۔ وہ سوچتا رہا،یہ ہزارروپے ماں کے ہاتھ پررکھوں، بابا کو دُوں، مولوی صاحب نے میری تربیت کی ہے، ان کاحق زیادہ ہے یا دوست جس نے مجھے ہنردیا؟ اس نے ماں سے مشورہ کیا۔ ماں نے کہا، رقم بابا کودو، وہ خوش ہوں گے۔
وہ جب سے دکان پر کام کرنے لگا تھا اس کے باپ نے اسے ڈانٹنا کم کردیا تھا،اسے وہ رات بھی یادتھی جس میں اس کی ماں بابا کی پاینتی بیٹھی سمجھانے کے انداز میں کہہ رہی تھی، ’’اولاد جوان ہوجائے تو اسے مارا کرتے ہیں نہ بے جا ڈانٹا کرتے ہیں، اولاد کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے، وہ مجروح ہوتی ہے۔ اولادزچ ہوکرخودکشی کرلیتی ہے یا باغی ہوجاتی ہے ۔ہمارے بیٹے کی صحت کمزور ہے پھربھی وہ دلجمعی سے کام سیکھ رہاہے ،اس کی ماں توپڑھے لکھے لوگوں جیسی باتیں کر رہی ہے۔
وہ جھجکتے ہوئے باپ کی کمرے میں داخل ہوا۔
بابا۔۔۔
اخبار سے نظریں اٹھا کر اس نے بیٹے کو دیکھا۔
کہو ۔۔۔
بابا ۔۔۔ یہ ہزارروپیہ۔
کہاں سے آیا ہے؟
بابا ۔۔۔ میری اپنی محنت ہے۔
(۴)
(کہانی بہت طویل ہے،سارے ٹکڑے جوڑے جائیں تو کہانی ناول میں ڈھل جائے گی،کسی بھی شخص کی عمرِطبعی کوناول، افسانے اورڈرامے میں ڈھالنابھی جانکاری ہے،کہانی مکمل کرنے کے لیے ایک ٹکڑا جوڑنا ضروری ہے ،لباس میں پیوندلگے ہوں تو بھی وہ لباس ہی کہلاتا ہے)
وہ’’ کاویا‘‘پکڑے قلعی کی آمیزش سے ایک ریڈیوکے سرکٹ میں ٹانکا لگا رہا تھا کہ ایک آ واز پر چونکا ۔آواز کسی نے دکان کے باہر سے دی تھی۔
’’مکینک‘‘ ۔۔۔ پکارنے والا شخص کار میں بیٹھا تھا۔
وہ بادلِ ناخواستہ اٹھ کر گیا۔
ہمارا ٹی وی خراب ہے ،گھرچل کر دیکھنے کا کتنا لو گے؟
جی میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔
’’خوب خوب ۔۔۔سفیدکنپٹیوں والاشخص ہنسا، ’’سامان اٹھائو اورمیرے ساتھ چلو۔‘‘
اس نے شاپرمیں اپنی ٹول کٹ ڈالی‘ ڈیجیٹل میٹر‘پلاس، پیچ کس‘قلعی کا ٹانکا لگانے کے لیے’’کاویا‘‘ ۔۔۔!
گھراتنی مسافت پرنہیں تھا۔احمدندیم قاسمی کے افسانے ’’گھرسے گھرتک‘‘ کاقالین کسی نے اس گھر میں لا بچھایا تھا۔ وہ جوتیاں اتارنے لگا تواس شخص نے کہا:
’’یہاں یہ تکلفات نہیں چلتے۔‘‘
’’مکینک تمھاری چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے، پہلے چائے پی لو۔‘‘کمرہ حسن کی آوازسے مہک اٹھا۔
اس نے انگشتِ شہادت اورانگوٹھے کی مددسے چائے پرسے بالائی ہٹائی، اسے پرچ کے کونے پر جمایا اور ٹھنڈی چائے کا گھونٹ لیا۔
ٹی وی مرمت ہونے پرمزدوری کا پوچھا گیا۔
پچاس روپے ۔۔۔
’’صرف پچاس روپے‘‘لڑکی نے تحیر آمیز لہجے میں سوال کیا ۔
’’میں ڈاکٹرنہیں ہوں۔ ‘‘
سفیدکنپٹیوں والاشخص پھرہنسا ۔۔۔ اس نے مکینک کوپانچ سو روپے پکڑائے،اس نے باقی رقم واپس کردی۔۔۔
’’عجیب مکینک ہے؟‘‘
وہ اس گھرکا فردہوگیا،پچاس روپے کی دیانتداری سے۔
زندگی اپنی رو میں بہتی رہی۔شام وسحر کے پیمانوں میں وہ اپنی عمرکے سانس پورے کرتارہا۔بازار میں اس کی دکان کو وقت کے ساتھ ساتھ مرکزی حیثیت حاصل ہوتی چلی گئی۔سفیدکنپٹیوں والے شخص نے اسے جس نام سے منسوب کیا تھا، وہ اس کے نام کاسابقہ لاحقہ کی بجائے مکمل پہچان بن گیا۔
’’اوئے چھوٹے بھاگ کے جا ۔۔۔ یہ چارچائے مکینک کی دکان پر دے آ ۔۔۔‘‘
’’یارکمیٹی ڈالنی ہے توپہلے اپنے مکینک یارکو بلائو ۔۔۔‘‘
’’چھوڑویار ۔۔۔ انجمن ضروربنانی ہےکیا؟ جوبنانا اتنا ہی ناگزیر ہے توصدر مکینک کو چن لو۔‘‘
وہ عزت کاسمبل بن گیا ۔۔۔
گھر پر جا کر مزدوری کرنے کو وہ اپنی زندگی کا حصہ نہ بنا سکا ‘ لیکن سفیدکنپٹیوں والے شخص کے ساتھ اس کا دوستانہ تعلق اس طور اُستوار ہوا کہ وہ فون آنے پر بھی ان کا کام نمٹا آتا۔ایک دن وہ ان کے گھرسے Play Station کی Cleaning کاکام مکمل کرکے نکل رہا تھاکہ نقرئی آواز اس کے پائوں میں زنجیربن گئی۔۔۔
’’مکینک تم بڑے مغرورہو ۔۔۔!‘‘
’’نہیں ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔‘‘
’’تم روبوٹ ہوکیا؟ناک کی سیدھ میں آئے،‘کام کیا اورچلے گئے۔ ‘‘
’’انسان روبوٹ ہی توبن کررہ گیا ہے جی!‘‘
’’لیکن جو پانچ سو روپے میں سے ساڑھے چارسو روپے لوٹا دے وہ روبوٹ نہیں ہوسکتا ۔۔۔ بیٹھو ۔۔۔ چائے پی کے جانا ۔۔۔‘‘
’’دکان پر کام کارش چل رہاہے ۔۔۔ ‘‘
’’پندرہ منٹ میں چائے بن جائے گی‘دو چار گاہک اورآ جائیں گے ۔۔۔تمھارے رزق میں اضافہ ہوجائے گا۔‘‘ وہ وہیں لان میں بچھی کرسی پربیٹھ گیا ۔۔۔ مالی پودوں کوپانی لگارہاتھا ‘مالی نے پائپ ایک کیاری سے نکال کر دوسری میں ڈالا اور کھرپہ لے کرپودوں کی گوڈی کرنے لگا ۔۔۔
’’یہ سب لوگ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘۔۔۔ مکینک نے مالی کودیکھ کر کہا ۔۔۔
’’کیسے لوگ ۔۔۔؟ کون سے ۔۔۔؟ ‘‘
’’یہ جو اپنے ہاتھ سے کما کرکھاتے ہیں ۔۔۔‘‘
’’اس میں تو شک نہیں ۔۔۔‘‘
’’مکینک تمھیں معلوم ہے آج میں نے تمھیں کیوں روکا ہے ۔۔۔؟‘‘
’’کمپیوٹر میں کوئی مسئلہ ہوگیا ہو گا۔‘‘
’’نہیں تو ۔۔۔‘‘
’’آج تمھارا مسئلہ ہے ۔۔۔‘‘
’’میں سمجھانھیں ۔۔۔!‘‘
’’مکینک یہ بتائو، تم ایک عرصے سے ہمارے گھرآرہے ہو ۔۔۔‘‘
’’جی ۔۔۔‘‘
’’پچھلے ایک دو ماہ سے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے‘ اس کی جستجونے تمھیں روکنے پر مجبورکیا ہے۔‘‘
ایک گہرا سناٹا تھا جو لان میں پھیل گیا،عجیب سی چپ تھی جو پودوں کے پتوں پرگرد کی مانند جمی تھی۔فضا میں پرندے اڑان بھول گئے تھے یا اس کی نگاہیں ساکت تھیں، لڑکی کے چہرے پرمحبت کا کوئی پرتو نہیں تھا لیکن ایک فکرمندی تھی جو اس کی آنکھوں سے جھلکتی تھی‘جھلکتی فکر مندی نے اسے بھی متفکر کر دیا ۔یہ میرے بارے کیا سوچ رہی ہے۔ مان لیا میں مدت مدید سے یہاں آ جا رہا ہوں۔ مجھے اس گھر کے دیوار و دَر سے اُنس ہے۔ ہراینٹ مجھ سے مانوس ہوچلی ہے لیکن اتنی اہمیت ۔۔۔؟ اور وہ بھی بازار میں بیٹھے ایک مکینک کو ۔۔۔!اس لڑکی نے اتنی تمہید کیوں باندھی ہے ۔۔۔بات کہنے میں اتنی دیر کیوں کر دی جاتی ہے؟ سانسیں اپنی رفتار بھول جاتی ہیں ۔۔۔
’’ مکینک میری بات سن رہے ہو ۔۔۔ نا!‘‘
(نوکرانی چائے رکھ گئی)
"جی ۔۔۔ ‘‘
’’میں دیکھ رہی ہوں تمھارے چہرے کارنگ زرد ہو چلا ہے‘ تمھیں کیا روگ ہے؟‘‘
’’روگ تو کوئی نہیں ۔۔۔ ‘‘
’’گردوں میں درد رہنے لگا ہے ۔۔۔‘‘
’’مکمل چیک کرایا ۔۔۔؟مثلاً الٹرا سائونڈ وغیرہ؟‘‘
’’نہیں جی ۔۔۔‘‘
’’میں نے پاپا سے کہاہے ۔۔۔تمھیں کل صبح ۔۔۔!‘‘ ابھی بات اس کے منہ میں تھی کہ کنپٹیوں والا سفیدشخص لان میں داخل ہوا اوران کے ساتھ بیٹھ گیا ۔۔۔
’’تو ۔۔۔ پاپا میں اس سے کہہ رہی تھی، کل صبح یہ آجائے آپ کا مکمل چیک اپ کرا دیں ۔۔۔‘‘
’’کیوں نہیں، کیوں نہیں ۔۔۔ مکینک تم صبح خالی پیٹ آجانا ۔۔۔ تاکہ جو Fasting Test ہوتے ہیں، ان میں پریشانی نہ ہو۔‘‘
’’جی ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں، میں دوائی لے رہا ہوں آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔گردے کا معمولی درد ہے، آرام آجائے گا ۔۔۔!‘‘
’’مکینک ۔۔۔ بڑوں کا کہا مانتے ہیں ۔۔۔ بس یہ آخری فیصلہ ہے، تم صبح آرہے ہو۔‘‘
(۵)
ہسپتال میں جمگھٹاتھا ۔۔۔
یہ چیک اپ کے چندہفتوں بعدکی بات ہے ۔۔۔ وہ دکان میں کام کرنے میں مگن تھا کہ گردوں میں درد کی ٹیسیں شدیدتر ہونے لگیں،کپڑے کی دکان والے بزرگ نے دکان کاشٹرگرایا، اپنی گاڑی نکالی، شوسٹور والے نے اپنے بیٹے کودکان سنبھالنے کوکہا اور کار کی پہلی سیٹ پر بیٹھ گیا‘ حسنِ اتفاق ہے مولوی صاحب باربر شاپ میں بال ترشوا رہے تھے ۔۔۔کہ ایک لڑکے نے کہا ۔۔۔
’’استادجی ۔۔۔ اپنے مکینک کو بڑا شدید درد اٹھاہے، اسے ہسپتال لے جا رہے ہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے باربر کا ہاتھ روک لیا ۔۔۔ اوردکان سے اٹھ آئے ۔۔۔سوزِدروں رکھنے والے سارے اس کے ساتھ ہولیے ۔۔۔کسی نے گھر اطلاع کی۔ اس کا بوڑھا باپ ۔۔۔ ماں اور بھائی پہنچ گئے ۔۔۔ اسے ہسپتال داخل کر لیا گیا ۔۔۔
اسے بستر پر لیٹنے سے الجھن ہونے لگی۔ یہ اس کے مزاج کاحصہ نہیں تھا لیکن علاج ضروری تھا ۔۔۔ سب اس کے اردگرد موجود رہے، بچپن کے دوست، مولوی صاحب، دکاندار، سفیدکنپٹیوں والا، ماں باپ ۔۔۔ ان سب کے درمیان موت بھی کہیں درمیان میں ہی گھوم رہی تھی، کوئی بھی اسے نہ دیکھ سکا۔
موت گھومتی رہی ۔۔۔!
ہسپتال کی کھڑکیوں کے شیشوں سے چھن چھن اندر آتی موت ۔۔۔ ہسپتال کے مین دروازے تک جاتی پلٹتی موت، اس کے بستر پر بیٹھی اس سے سرگوشیاں کرتی موت، موت جو ازل سے ہماری رفیق ہے، کسی کو نظر نہیں آتی، موجود رہتی ہے، اس لمحے جس لمحے ہم پہلا سانس لیتے ہیں، انسان جنم لیتا ہے ۔۔۔ انسان کے ساتھ موت جنم لیتی ہے ۔۔۔موت کوبینائی نہیں پاسکتی، سانس کی رفتار کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، مکینک کے ساتھ بھی وہ چل رہی تھی، اسے معلوم نہیں تھا، کسی کومعلوم نہیں ہوتا، وقت معین ہے پھربھی معلوم نہیں ۔۔۔ مکینک کے والدکوبھی معلوم نہیں تھا ۔۔۔موت وہاں ہسپتال میں تھی یا نہیں ۔۔۔کسی کومعلوم نہیں تھا۔۔۔
جس صبح سورج کی کرنوں سے موت دبے پائوں اُتری، مکینک کے بستر پرمسکراہٹ تھی ۔۔۔
خبر اس وقت ہوئی جب شٹرگرے اور چھوٹے سے بازار کی سب دکانیں بند ہو گئیں۔
(آخری منظر)
سورج اب بھی کوارٹروں کی اس قطارسے کنی کترا کے گزرتاہے۔ سردیوں میں دھوپ کی قلت ہونے سے ان کوارٹروں کے مکین گلی میں نکل بیٹھتے ہیں۔ مردڈیوٹی پرجاتے ہیں توعورتیں گھر کا کام نمٹاکر کشادہ گلی میں چارپائیاں ڈال کر بیٹھ جاتی ہیں اور کچرکچر باتیں کرتی ہیں ۔۔۔
ان میں ایک کردار کا اضافہ ہوگیا ہے ۔۔۔!
ایک بوڑھاشخص ٹوٹی چارپائی دروازے کے سامنے ڈالے ہرآنے جانے والے سے سوال کرتا ہے ۔۔۔
’’اے بھائی ۔۔۔ اے بابا ۔۔۔ بیٹا ۔۔۔ اوبیٹا ۔۔۔ بی بی ۔۔۔ میری بات توسنو !‘‘
مکینک کہاں گیا۔۔۔!
……………………………………
سہ ماہی "کارواں” بہاول پور
جلد: ۴۲
جنوری ۲۰۱۴ء تا دسمبر ۲۰۱۴ء