احمد ندیم قاسمی

کون جگ میں ترا ہم سر دیکھے
کوئی اس دھند میں کیوں کر دیکھے

عمر بھر ایک ترا دھیان رہا
یوں تو مہر و مہ و اختر دیکھے

آنکھ صرف آنکھ ہے، آئینہ نہیں
جو تجھے سامنے پا کر دیکھے

تیرے جاتے ہی یہ محسوس ہوا
عمر گزری تجھے پل بھر دیکھے

دور ہی دور سلگنے والے
کاش تو پاس بھی آ کر دیکھے

ہم تو تھے حسن کے تاریخ نگار
ہم نے قیصر نہ سکندر دیکھے

لوگ ماضی کے دھوئیں میں ڈوبے
ہم نے گیسوئے معنبر دیکھے

نظر آئے انھیں سبزے میں بھی سانپ
ہم نے صحرا بھی ثمرور دیکھے

انھیں جسموں سے بتوں نے جھانکا
ہم نے پتھر میں بھی پیکر دیکھے

انھیں دریاؤں نے پیاسا مارا
ہم نے آنکھوں میں سمندر دیکھے

کون غالبؔ سا سخن ور ہے ندیمؔ
سیکڑوں یوں تو ہنر ور دیکھے

Related posts

Leave a Comment