نوح ناروی ۔۔۔ ابھی کم سن ہیں معلومات کتنی

ابھی کم سن ہیں معلومات کتنی
وہ کتنے اور اُن کی بات کتنی

یہ میرے واسطے ہے بات کتنی
وہ کہتے ہیں: تری اوقات کتنی

سحر تک حال کیا ہو گا ہمارا

خدا جانے ابھی ہے رات کتنی

یہ سر ہے، یہ کلیجہ ہے، یہ دل ہے

وہ لیں گے خیر سے خیرات کتنی

توجہ سے کبھی سن لو مری بات

جو تم چاہو تو یہ ہے بات کتنی

طبیعت کیوں نہ اپنی مضمحل ہو

رہی یہ موردِ آفات کتنی

گلستاں فصلِ گل میں لُٹ رہا ہے

حنا آئی تمھارے ہات کتنی

ہمارے دل نہ دینے پر خفا ہو

لٹاتے ہو تمھی خیرات کتنی

 کرو شکرِ ستم اُن کے ستم پر

کہ اتنی بات بھی ہے بات کتنی

جفا و قہر سے واقف نہ تھا میں

بڑھی الفت میں معلومات کتنی

جفا والے حساب اس کا لگا لیں

وفا کرتا ہوں میں دن رات کتنی

عبادت حضرتِ زاہد کروں میں

مگر اے قبلۂ حاجات! کتنی

نہیں رکتے ہمارے اشک، اے نوح!

یہ طوفاں خیز ہے برسات کتنی

Related posts

Leave a Comment