کسی بے انت لمحے میں….. ارشد نعیم

کسی بے انت لمحے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ جانے کون سا بے انت لمحہ تھا
نہ جانے کون سی ہجرت کی ساعت تھی
کہ جب میں نے تجھے، تو نے مجھے بے ساختہ آواز دی تھی
سفر کی خامشی آواز کے دامن سے پھوٹی
تو کھلا ہم پر
کہ یہ اک دشت کی جانب روانہ قافلہ ہے
جس میں ہم تم چل رہے ہیں
عجب بے تاب موسم تھے
عجب بے رنگ رستے تھے
کوئی وحشت بدن کے ریشے ریشے سے نمایاں تھی
عجب اسرار اُس منظر کا حصہ تھا
کوئی بے چین خواہش دو دلوں میں ایک اک کر کے دھڑکتی تھی
ادھورا عشق آنکھوں میں ادھورے عشق کو تشکیل دیتا تھا
زمانہ سن رہا تھا اور اس بے انت ساعت میں
کسی بے انت جذبے کی کہانی تھی
کسی بے مہر موسم کی اسیری میں
کہیں پر دور بنتے ٹوٹتے ان دائروں کا اک تسلسل
اک ندا کے بھیس میں ہم کو بلاتا تھا
مگر اے ہم نفس! یہ سب کے سب ماضی کے منظر ہیں
جنھیں تیری رفاقت پل دو پل کو راس آئی تھی
مگر اب خواب دانوں میں نئے منظر کی آمد ہے
تمھارا ہجر اب میرا اثاثہ بننے والا ہے
کہانی اک نئی کروٹ بدلتی ہے
سنو، اب داستاں گو اختتامی واقعے پر
آنے والا ہے

Related posts

Leave a Comment