تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا
دل ترا حاشیہ بردار نہیں ہو سکتا
کیا ہواؤں کے قبیلے سے تعلق ہے ترا؟
تو چراغوں کا طرف دار نہیں ہو سکتا؟
تو نے جو رقص رچایا ہے بدن کے اندر
یہ تماشا سرِ بازار نہیں ہو سکتا؟
اے مری نیند پہ بہتان لگانے والے!
میں ترے خواب میں بیدار نہیں ہو سکتا؟
اشک کا پھول مری آنکھ پہ کھلنا ہے سعید
شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...