وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے وہ جس کی دید سے ہوں سیر آنکھیں ثمر سے بھی زیادہ رَس بھرا ہے نگاہوں میں چھپی نجمِ سحر سی عجب بے نام سی طُرفہ حیا ہے اسے دیکھو بہ حالِ لطف جب بھی مثالِ مہ، پسِ باراں دھُلا ہے کرے وہ گل نہ ایسا تو کرے کیا سنا ہم نے بھی ہے وہ خود نما ہے تعلق اُس سے ماجد کیا بتائیں معانی سا جو لفظوں میں بسا ہے
Read MoreTag: ماجد صدیقی
ماجد صدیقی ۔۔۔ دھچکے ابھی کتنے ہیں ابھی کھائیاں کیا کیا
دھچکے ابھی کتنے ہیں ابھی کھائیاں کیا کیا جینا ابھی دے گا مجھے رسوائیاں کیا کیا کچھ قطعِ رگِ جاں سے، کچھ قُلقُلِ خوں سے بجتی ہیں محلّات میں شہنائیاں کیا کیا خود نام پہ دھبے ہیں جو، ہاں نام پہ اُن کے ہوتی ہیں یہاں انجمن آرائیاں کیا کیا قوسوں میں فلک کی، خمِ ابرو میں ہَوا کے دیکھی ہیں یہاں خلق نے دارائیاں کیا کیا جو چھید ہوئے تھے کبھی دامانِ طلب میں دیں دستِ غضب نے اُنھیں، پہنائیاں کیا کیا ہٹ کر بھی ہمیں پرورشِ جاں سے…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ دامن دامن بھیگ چلا ہے آنکھیں ساری بے نم ہیں
دامن دامن بھیگ چلا ہے آنکھیں ساری بے نم ہیں اشک بھی جیسے اوس ہُوئے دیتے جو دکھائی کم کم ہیں اک جیسی ہیں وہ جلتی آنکھوں کی ہوں کہ چراغوں کی رخساروں منڈیروں پر جتنی بھی لَویں ہیں مدّھم ہیں صحراؤں میں دست و گریباں اِک دوجے سے بگولے بھی بحر کنارے موجیں بھی مصروفِ شورشِ باہم ہیں وہ بھی جو دبنے والے ہیں نسبت اُس سے رکھتے ہیں اور وہ بھی جو دھونس دکھائیں فرزندانِ آدم ہیں اب کے تو آثارِ سحر جیسے نہ اِنھیں بھی دکھائی دیں…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ خون میں برپا رہتی تھی جو ہلچل سی
خون میں برپا رہتی تھی جو ہلچل سی اب کے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی ایسی کیوں ہے، آنکھ نہیں بتلا سکتی ِنِندیا ہے کہ گرانی سے ہے بوجھل سی لا فانی ہے، یہ تو کتابیں کہتی ہیں روح نجانے رہتی ہے کیوں بے کل سی رات کا اکھوا ہے کہ نشانِ بد امنی دور افق پر ایک لکیر ہے کاجل سی منظر منظر تلخ رُوئی ہے وہ ماجد اُتری ہے جو آنکھوں آنکھوں حنظل سی
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں اصول اُس کو کھِلا نہیں ہے ابھی پھول اور یہ عالم ہے بھنبھوڑ نے پہ تُلی ہے، چمن کی دھول اُس کو ذرا سی ایک رضا دے کے، ابنِ آدم کو پڑے ہیں بھیجنے، کیا کیا نہ کچھ رسول اُس کو ہُوا ہے جو کوئی اک بار، ہمرکابِ فلک زمیں کا عجز ہو ماجد، کہاں قبول اُس کو
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ دامن دامن بھیگ چلا ہے آنکھیں ساری بے نم ہیں
دامن دامن بھیگ چلا ہے آنکھیں ساری بے نم ہیں اشک بھی جیسے اوس ہُوئے دیتے جو دکھائی کم کم ہیں اک جیسی ہیں وہ جلتی آنکھوں کی ہوں کہ چراغوں کی رخساروں منڈیروں پر جتنی بھی لَویں ہیں مدّھم ہیں صحراؤں میں دست و گریباں اِک دوجے سے بگولے بھی بحر کنارے موجیں بھی مصروفِ شورشِ باہم ہیں وہ بھی جو دبنے والے ہیں نسبت اُس سے رکھتے ہیں اور وہ بھی جو دھونس دکھائیں فرزندانِ آدم ہیں اب کے تو آثارِ سحر جیسے نہ اِنہیں بھی دکھائی دیں…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا
قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا مردُود، بہت مقبول ہُوا ہر طُول کو عرض کیا اُس نے اور عرض تھا جو وہ طُول ہُوا پھولوں پہ تصّرف تھا جس کا وہ دشت و جبل کی دھُول ہُوا اِک بھول پہ ڈٹنے پر اُس نے جو کام کیا، وہ اصول ہُوا گنگا بھی بہم جس کو نہ ہُوا جلنے پہ وہ ایسا پھول ہُوا ہو کیسے سپھل پیوندوں سے ماجد جو پیڑ، ببول ہُوا
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ جذبوں کو زبان دے ر ہا ہوں
جذبوں کو زبان دے ر ہا ہوں میں وقت کو دان دے رہا ہوں موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں یوں ہے نمِ خاک بن کے جیسے فصلوں کو اُٹھان دے رہا ہوں جو جو بھی خمیدہ سر ہیں اُن کے ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں کیسی حدِ جبر ہے یہ جس پر بے وقت اذان دے رہا ہوں اوقات مری یہی ہے ماجد ہاری ہوں, لگان دے رہا ہوں
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ خلق چاہے اُسے حسین کوئی، وقت با صورتِ دگر دے دے
خلق چاہے اُسے حسین کوئی، وقت با صورتِ دگر دے دے ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے اہلِ حق کو جو فتحِ مکہ دے اے خدا تجھ سے کچھ بعید نہیں اشک ہیں جس طرح کے آنکھوں میں دامنوں کو وہی گہر دے دے ہوں بھسم آفتوں کے پرکالے بُوندیوں میں بدل چلیں ژالے جو بھی واماندگانِ گلشن ہیں رُت انہیں پھر سے بال و پر دے دے لَوث جس کونہ چھُو کے گزری ہو جس میں خُو خضرِ دستگیر کی ہو…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ دھوکا تھا ہر اِک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا
دھوکا تھا ہر اِک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا میں اشک ہوں، میں اوس کا قطرہ ہوں، شرر ہوں انداز بہم ہے مجھے پانی کے سفر کا کروٹ سی بدلتا ہے اندھیرا تو اُسے بھی دے دیتے ہیں ہم سادہ منش، نام سحر کا تہمت سی لئے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے رُسوا ہے بہت نام یہاں اہلِ ہُنر کا قائم نہ رہا خاک سے جب رشتۂ جاں تو بس دھول پتہ پوچھنے آتے تھی شجر کا جو…
Read More