خالد احمد

محیطِ حلقۂ آزار دیکھ لیتے ہیں ہم اپنا دائرۂ کار دیکھ لیتے ہیں ہوا کی چال، ستاروں کا رُخ، سکوت کی سمت چراغ، صبح کے آثار دیکھ لیتے ہیں عجائباتِ محبت، تبرکاتِ وفا اب آ گئے ہیں تو اے یار! دیکھ لیتے ہیں یہ دل، یہ زاویۂ غم، یہ گوشۂ حسرت تری نظر سے ہم اک بار دیکھ لیتے ہیں نوازشات و عنایاتِ یار سے پہلے ہم اپنا پیرہنِ تار دیکھ لیتے ہیں قدم گرفتہ، مثالِ غبار بیٹھ رہے بس اُٹھ کے محملِ زرتار دیکھ لیتے ہیں ہم اُس گلی…

Read More