احسان شاہ ۔۔۔ نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب

نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب ہر ایک عہد سے ہے محوِ گفتگو مرا خواب تلاشِ نان و نمک کھا گئی ہے میری نیند بہا کے لے گئی دنیائے آبجو مرا خواب بلا رہی ہے مجھے اپنی اور مقتلِ شب خراج مانگ رہا ہے مرا لہو مرا خواب فصیلِ جبر کی بنیاد تک ہلا دے گا اک انقلاب کی ہو گا کبھی نمو، مرا خواب وہ خواب دیکھ رہی ہیں مری کھلی آنکھیں ہر ایک خواب کی ٹھہرے گا آرزو مرا خواب تو اپنے خواب کے زندان سے نکل…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا

اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا بولئے پھر پتھروں سے دل کا سودا کیوں کیا لن ترانی کی صدا ہر آیتِ قدرت میں ہے اپنی ناموجودگی کا اتنا چرچا کیوں کیا آنے والے کل کی چیخیں کہہ رہی ہیں مجھ سے آج جو نہیں دیکھے تھے ان خوابوں کو رسوا کیوں کیا تیرتے ہیں پانیوں پر اب غباروں کی طرح سوچتا ہوں پتھروں نے خود کو ہلکا کیوں کیا خود سے باہر آکے خود کو خود پہ ظاہر کردیا میں تو اپنا رازداں تھا، میں نے ایسا کیوں…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق

یہ قیس نام کے بندے سے اس کو کیا نسبت ازل سے دشتِ جنوں میری شاملات میں ہے

Read More