ڈاکٹر اسحاق وردگ ۔۔۔۔۔۔ مرے لیے تو یہ بےکار ہونے والا ہے

مرے لیے تو یہ بےکار ہونے والا ہے یہ دل کہ عشق سے بے زار ہونے والا ہے میں اُس سے خواب کے رستے پہ ملنے آیا ہوں مگر وہ نیند سے بیدار ہونے والا ہے سناہے یوسف ِ ثانی کبھی نہیں آیا سنا ہے ختم وہ بازار ہونے والا ہے میں جس کے نام کے اک دائرے کا قیدی ہوں خبر نہ تھی کہ وہ پَرکار ہونے والا ہے وہ جس کے ہاتھ سے قصے نے موت پائی ہے سناہے صاحب ِ کردار ہونے والا ہے جو فیصلہ سر…

Read More

شناور اسحاق ۔۔۔۔۔۔۔ وجود کی خبر نہیں، عدم سے آشنا نہیں

وجود کی خبر نہیں، عدم سے آشنا نہیں ہمارے پاس کچھ نہیں، ہمارے پاس کیا نہیں اہانتوں کے گھاؤ تھے، گذشتگاں کے داغ تھے کبھی کے مر چکے ہیں ہم، مگر یہ واقعہ نہیں وجود کی جڑوں میں گھر بنا لیا تھا خوف نے ہم اُس کی نذر ہو گئے جو حادثہ ہوا نہیں یہ علتی بہ ذاتِ خود ہے فتنہ ساز، دیکھ لو جہاں جہاں بشر نہیں، وہاں وہاں خدا نہیں نظر، شعور، حسن، وقت۔۔۔ کیا بہم نہیں یہاں مسافروں کی چھوڑیے، یہ راستا برا نہیں

Read More

اسحاق وردگ ۔۔۔۔۔ کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا

کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا تتلی کی اُداسی کو بھی امکان میں رکھنا میں عشق ہوں اور میرا نہیں کوئی ٹھکانہ اے حسن! مجھے دیدۂ حیران میں رکھنا شاید میں کسی اور زمانے میں بھی آؤں ممکن تو نہیں ہے مگر امکان میں رکھنا اب مرکزی کردار تمھارا ہے، مرے دوست! تم میری کہانی کو ذرا دھیان میں رکھنا یہ راہِ محبت تو فقط بند گلی ہے آسان سے رستے کو بھی سامان میں رکھنا

Read More