وجود کی خبر نہیں، عدم سے آشنا نہیں
ہمارے پاس کچھ نہیں، ہمارے پاس کیا نہیں
اہانتوں کے گھاؤ تھے، گذشتگاں کے داغ تھے
کبھی کے مر چکے ہیں ہم، مگر یہ واقعہ نہیں
وجود کی جڑوں میں گھر بنا لیا تھا خوف نے
ہم اُس کی نذر ہو گئے جو حادثہ ہوا نہیں
یہ علتی بہ ذاتِ خود ہے فتنہ ساز، دیکھ لو
جہاں جہاں بشر نہیں، وہاں وہاں خدا نہیں
نظر، شعور، حسن، وقت۔۔۔ کیا بہم نہیں یہاں
مسافروں کی چھوڑیے، یہ راستا برا نہیں
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...