شناور اسحاق ۔۔۔۔۔۔۔ وجود کی خبر نہیں، عدم سے آشنا نہیں

وجود کی خبر نہیں، عدم سے آشنا نہیں ہمارے پاس کچھ نہیں، ہمارے پاس کیا نہیں اہانتوں کے گھاؤ تھے، گذشتگاں کے داغ تھے کبھی کے مر چکے ہیں ہم، مگر یہ واقعہ نہیں وجود کی جڑوں میں گھر بنا لیا تھا خوف نے ہم اُس کی نذر ہو گئے جو حادثہ ہوا نہیں یہ علتی بہ ذاتِ خود ہے فتنہ ساز، دیکھ لو جہاں جہاں بشر نہیں، وہاں وہاں خدا نہیں نظر، شعور، حسن، وقت۔۔۔ کیا بہم نہیں یہاں مسافروں کی چھوڑیے، یہ راستا برا نہیں

Read More