کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنایا تو بیگانے ہی رہیے ہو جیے یا آشناپائمالِ صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیبسبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشناکون سے یہ بحرِ خوبی کی پریشاں زلف ہےآتی ہے آنکھوں میں میرے موجِ دریا آشنا(ق)بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاش کےیک مژہ رنگِ فراری اس چمن کا آشناجس کی میں چاہی وساطت اُس نے یہ مجھ سے کہاہم تو کہتےگر میاں! ہم سے وہ ہوتا آشناداغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میرہونجات اس کو بچارا ہم…
Read MoreTag: meer taqi meer’s ghazals
میر تقی میر ۔۔۔ دل میں بھرا زبسکہ خیالِ شراب تھا
دل میں بھرا زبسکہ خیالِ شراب تھامانند آئنے کے مرے گھر میں آب تھاموجیں کرے ہے بحرِ جہاں میں ابھی تو تُوجانےگا بعدِ مرگ کہ عالم حباب تھااُگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہمصحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھاٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اُس دم کی حسرتیںجس دم یہ سوجھے گی کہ یہ عالم بھی خواب تھادل جو نہ تھا تو رات زخود رفتگی میں میرؔگہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ اب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
اب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھاآیا شبِ فراق تھی یا روزِ جنگ تھاکثرت میں درد و غم کی نہ نکلی کوئی تپشکوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھالایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذبِ عشقجس بے وفا کو نام سے بھی میرے ننگ تھادل سے مرے لگا نہ ترا دل ہزار حیفیہ شیشہ ایک عمر سے مشتاقِ سنگ تھامت کر عجب جو میرؔ ترے غم میں مرگیاجینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کا
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کاجس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تِیر کاسب کھلا باغِ جہاں اِلّا یہ حیران و خفاجس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کابوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے اے بادِ بہارہوگیا ہے چاک دل شاید کسو دل گیر کارہ گزر سیلِ حوادث کا ہے بے بنیاد دہراس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کابس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے دردِ سرکامِ جاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کاجو ترے کوچے…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیادلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیاقسم جو کھایئے تو طالعِ زلیخا کیعزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیاخراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانےنگاہِ مست نے ساقی کی انتقام لیاوہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھینہ سیدھی طرح سے اُن نے مرا سلام لیامرے سلیقے سے میری نبھی محبت میںتمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کاالقصّہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کاگریے پہ رنگ آیا قیدِ قفس سے شایدخوں ہوگیا جگر میں اب داغ گلستاں کادی آگ رنگِ گل نے واں اے صبا !چمن کویاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کاہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہےپیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کافتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہےوہ قصد کب کرے ہے اس صیدِ ناتواں کاکم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھواحوال کیا کہوں میں اس…
Read Moreمیرتقی میر ۔۔۔ بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا
بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا اپنے کیے کا اُن نے ثمرہ شتاب دیکھا دل کا نہیں ٹھکانا بابت جگر کی گم ہے تیرے بلاکشوں کا ہم نے حساب دیکھا آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت اُس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا لیتے ہی نام اُس کا سوتے سے چونک اُٹھے ہو ہے خیر میر صاحب! کچھ تم نے خواب دیکھا!
Read Moreمیر تقی میر
عاشق ہو تو اپنے تئیں دیوانہ سب میں جاتے رہو چکر مارو جیسے بگولا خاک اُڑاتے آتے رہو
Read Moreمیر تقی میر
وجہ ِ بے گانگی نہیں معلوم تم جہاں کے ہو، واں کے ہم بھی ہیں
Read Moreمیر تقی میر
اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ آب اُس کے پوست میں ہے جوں میوہِ رسیدہ
Read More