پو پھوٹے تو چلنے کی تیاری کرتا ہوں
ایک سفر ہے جس کو خود پر طاری کرتا ہوں
پہلے اس کے دل میں درد کا شہر بساتا ہوں
اور پھر اس میں اپنا سکہ جاری کرتا ہوں
جانے کس کی یاد میں آنکھیں روشن رہتی ہیں
جانے کس کے ہجر میں شب بیداری کرتا ہوں
خود ہی کر لیتا ہوں پہلے قتل محبت کو
اور پھر خود ہی بیٹھ کے گریہ زاری کرتا ہوں
روز اسے آنکھوں میں بھر کر روز گراتا ہوں
اکثر یوں بھی اپنی دل آزاری کرتا ہوں
پہلے اک کونے میں ٹوٹے خواب چھپاتا ہوں
اور پھر اس سے ملنے کی تیاری کرتا ہوں