آج تو رونے کو جی ہو جیسے
پھر کوئی آس بندھی ہو جیسے
شہر میں پھرتا ہوں تنہا تنہا
آشنا ایک وہی ہو جیسے
ہر زمانے کی صدائے موعتوب
میرے سینے سے اٹھی ہو جیسے
خوش ہوئے ترکِ وفا کر کے ہم
اب مقدّر بھی یہی ہو جیسے
اس طرح شب گئے ٹوٹی ہے امید
کوئی دیوار گری ہو جیسے
یاس آلود ہے ایک ایک گھڑی
زرد پھولوں کی لڑی ہو جیسے
میں ہوں اور وعدۂ فردا تیرا
اور اک عمر پڑی ہو جیسے
بے کشش ہے وہ نگاہِ صد لطف
اِک محبّت کی کمی ہو جیسے
کیا عجب لمحۂ غم گزرا ہے
عمر اک بیت گئی ہو جیسے