بادِ نسیاں ہے، مرا نام بتا دو کوئی
ڈھونڈ کر لاؤ مجھے، میرا پتا دو کوئی
حادثہ ہے کہ ستاروں سے مجھے وحشت ہے
مجھ کو اس دشت کے آداب سکھا دو کوئی
وہ اندھیرا ہے کہ تنہائی سے ہول آتا ہے
سارے بچھڑے ہوئے لوگوں کو صدا دو کوئی
ایک مدت سے چراغوں کی طرح جلتی ہیں
ان ترستی ہوئی آنکھوں کو بجھا دو کوئی
موج در موج مری زندگی گرداب میں ہے
اس سفینے کو کنارے سے لگا دو کوئی