میں بچوں کو اُجالے دے رہا ہوں
کتابوں کے کھلونے دے رہا ہوں
بڑھاتا جا رہا ہوں ان کی قیمت
جن آئینوں کو چہرے دے رہا ہوں
جہاں ویرانیوں کا ہے بسیرا
انھی آنکھوں کو سبزے دے رہا ہوں
مرے مرنے کی جن کو ہے تمنا
انھیں سانسوں کے تحفے دے رہا ہوں
ہر اک تتلی ہے رقصیدہ چمن میں
اسے خوشبو کے جھمکے دے رہا ہوں
یقیناً ان سے نفرت ہی ملے گی
جنھیں الفت کے قرضے دے رہا ہوں
پریشاں ہیں جو راتوں کے مسافر
عقیل ان کو سویرے دے رہا ہوں