ایک تو تھی شہر میں اشکوں کی ارزانی بہت
اور اس پر تھا مری آنکھوں میں بھی پانی بہت
اب کے سب اچھے برے غرقاب ہوں گے ساتھ ہی
اب کے سیلِ آب میں ہونی ہے طغیانی بہت
مجھ کو رونے کے لیے درکار تھا شانہ کوئی
تھی مگر آب و ہوا بستی کی بیگانی بہت
نام لے لے کر کسی کا درد اپنے رو دیے
کام میرے آئی میری مرثیہ خوانی بہت
آدمی کو فرشِ غم پر کھل کے رونا چاہیے
درد رو دینے سے ہو جاتی ہے آسانی بہت
اک دریچہ کھول کر دیکھا جو میں نے شہر کو
یاد آئی مجھ کو اپنے دل کی ویرانی بہت
اک طرف کچھ ٹھان کر بیٹھے ہوئے تھے کچھ چراغ
دوسری جانب ہوائیں بھی تھیں دیوانی بہت
اک شبِ تیرہ کو اپنی تیرگی کے زعم میں
ایک جگنو کی جسارت پر تھی حیرانی بہت
کچھ نہیں کھلتا کہ آخر کو مسافر کیا ہوا
حوصلہ کم کم تھا اور تھی خستہ سامانی بہت
حادثہ ایسا نہیں تھا جس کو بھولا جا سکے
آج بھی سوچوں تو ہوتی ہے پریشانی بہت
خیر سے سر سبز ہے دریا کی منت کے بغیر
کیوں کہ میرے کھیت کی مٹی ہے بارانی بہت
زندگی بھر عشق کرنے کی کبھی ہمت نہ کی
ایک ہی دل تھا سو اس دل کی تھی نگرانی بہت