ٹوٹی ہے میری نیند مگر، تم کو اس سے کیا
بجتے رہے ہواؤں سے در، تم کو اس سے کیا
تم موج موج مثلِ صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر، تم کو اس سے کیا
اوروں کا ہاتھ تھامو، انھیں راستہ دکھاؤ
میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر، تم کو اس سے کیا
ابرِ گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر، تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر، تم کو اس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر، تم کو اس سے کیا