اے مرے رشکِ گلِ آتش فام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک آواز کی تصویر بنانی ہے مجھے
ایک آواز
کہ جس کی پرواز
رنگ در رنگ نواحِ دلِ صد خواب کے گرد
یوں خطِ لمسِ ادا کھینچتی ہے
اپنی انگڑائی کو آفاق کے بھیگے ہوئے کینوس پہ کہیں
جس طرح قوسِ قزح کھینچتی ہے
اے مری قوسِ قزح!
ایک آواز کی تصویر بنانی ہے مجھے
ایک دیوار گرانی ہے مجھے
ایک دیوار اُٹھانی ہے مجھے
آئنے جوڑ کے ایک آئنہ خانے کومجھے
اُن لبوں کی کوئی تمثیل دکھانی ہے
جنھیں
جب صبا چومنے والی ہو تو اس سے پہلے
وہ کچھ اس طرح سے وا ہو جائیں
جیسے
غنچہ لبِ اظہار کو وا کرتا ہے
اے مرے غنچہ دہن!
ایک آواز کی تصویر بنانی ہے مجھے
جس کے لہجے میں فسوں بولتا ہو
جو رگِ جاں میں اتر کر مری جاں!
سینۂ دل کے انا گیر مضافات میں
اک دورِ جنوں ساز کے در کھولتا ہو
ہجر اور وصل کے مابین کہیں
رقصِ ماہِ شبِ پُرپیچ کے پر کھولتا ہو
اے مرے رشکِ رُخِ ماہِ تمام!
ایک آواز کی تصویر بنانی ہے مجھے
جس کے رخساروں کی لو
زلفِ شب زاد کی پرتوں سے مجھے جھانکتی ہو
مجھ سے اکثر جو مرا حسنِ نظر مانگتی ہو
دل کی تختی پہ اسی لو کے خطوط
ناخنِ گل سے بہ اندازِ دگر کھینچتی ہو
اے مرے رشکِ گلِ آتش فام!
ایک آواز کے چہرے پہ غزال آنکھیں بنانی ہیں مجھے
اور یہ بات بتانی ہے تجھے
بات کرتے ہوئے جب پلکیں جھپکتی ہوں وہ آنکھیں
اُس وقت
شام اور صبح کے رنگ
دونوں رنگ اُس کی سخن ساز نگاہوں میں گلے ملتے ہوں
اے مرے رشکِ غزالِ رم ساز!
میں نے دیکھے ہیں وہ رنگ اور وہ ڈھنگ
جب وہ آواز مرے کانوں میں رس گھولتی ہے
حالتِ رقص میں اکثر مرے دل کی تہ میں
جب وہ سانسوں کے بھنور کھولتی ہے
اُس کی ایک ایک ادابولتی ہے