ڈھونگ
۔۔۔۔۔۔
آج میں یہ دیکھ سکتا ہُوں کہ گُل
مُجھ سا بننا چاہتے ہیں!
گُل، سنہرے اور درخشاں
وحشتِ فرطِ جنوں میں رقص کرتے، جھومتے!
بے خودی کی موج میں دستِ صبا کو چومتے!
گُل، خمیدہ سر،ملائم!سرکش و مغرور گُل!
اختیار و جبر کے مدّ و جزر سے چُور گُل!
گُل نڈر، بے خوف، پر ہارے ہُوئے،
بے بس و لرزش بجاں گُل، ہجر کے مارے ہُوئے!
گُل، تپاں لیکن سدا محوِ دُعا
اپنے پتے بازوؤں کی مثل پھیلائے ہوئے
اپنی اپنی ذات میں کھوئے ہُوئے
بے تقاضا، بے صدا گُل!
بے زباں، خاموش، پر بے باک گُل!
اپنے اپنے حُسن میں محوِ فُغاں،
اپنی اپنی برف میں آتش بجاں
میں اگر سر سبز لگتا ہُوں تمھیں
میری آنکھیں برگِ خوابِ ابر ہیں
اور گُل ہُوں میں!