تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے
سب واقعے ہمارے لیے دردناک تھے
اندازِ گفتگو تو بڑے پر تپاک تھے
اندر سے قربِ سرد سے دونوں ہلاک تھے
ٹوٹا عجب طرح سے طلسمِ سفر کہ جب
منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے
اب ہو کوئی چبھن تو محبّت سمجھ اسے
وہ ربط خود ہی مٹ گئے جو غم سے پاک تھے
ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف
جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...