بانی ۔۔۔۔۔ تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے

تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے
سب واقعے ہمارے لیے دردناک تھے

اندازِ گفتگو تو بڑے پر تپاک تھے

اندر سے قربِ سرد سے دونوں ہلاک تھے

ٹوٹا عجب طرح سے طلسمِ سفر کہ جب

منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے

اب ہو کوئی چبھن تو محبّت سمجھ اسے

وہ ربط خود ہی مٹ گئے جو غم سے پاک تھے

ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف

جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے

Related posts

Leave a Comment