الیاس بابر اعوان ۔۔۔ عمران عامی کا عمرانی منظر نامہ

عمران عامی کا عمرانی منظر نامہ

ایک فن کار کبھی بھی اپنے سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا ، یہ بات شاید اب کلیشے بن چکی ہے۔نئے سماجی منظر نامے میں سامنے کی علامتوں کا زوال اور نئے مفاہیم پہ عمرانی حوالے سے ادب کے ساتھ ساتھ صحافت کا ادارہ اپنی سی کرتا رہاہے۔ایک تخلیق کار کے ہاں وہ اجتماعی وحدت جوعمرانی حوالوں سے انسانی سماج کے خود کار نظام کو مربوط رکھتی ہے وہ دیگر تخلیقی اظہاریوں میں اپنی شدت میں کم نظر آتی ہے۔مابعد الجدیدیت نے جس بری طرح سے روایتی سماجی مباحث اور عمرانی تشکیلات کو متاثر کیا ہے اس کا اثر اردو تخلیقی اظہاریوں میں نمایاں تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ کچھ تخلیق کاروں کے ہاں نئے انتشار کا حصہ بن کر لا مرکزیت اور خود ترحمی کا رونا ہے اور کچھ کے ہاں تجریدی عُجب پہ تخلیقی اور تہذیبی انگشت نمائی کی سعی نمایاں ہے ۔ عمران عامی دوسری قبیل کا شاعر ہے جس کے ہاں علامت اپنی فکری کروٹ سے الٹ نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے ہاں ایک فکری کڑی جو شعوری طور پر دستاویزی سطح پر موجود نہیں ہوتی ، دریافت کرنا پڑتی ہے ۔ہمارے ہاں کا عمرانی منظر نامہ تہہ در تہہ شکست و ریخت کی ایک تاریخی دستاویز ہے ۔مقامی اور درآمد شدہ مہابیانیوں اور ان کے ردو قبول کی فلسفیانہ مباحث نے یہاں کی معاشرت اور اجتماعی تہذیبی نفسیات پر لایعنیت کے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، عمران کے ہاں یہ سب کچھ دکھائی دیتا ہے ۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:

ہوا سے ہو رہی ہے گفتگو مری
شجر سے تو کلام کر نہیں رہا

یہ شعر محض جمالیاتی حظ کشید کرنے کیلیے نہیں استعارا گیا بلکہ اس میں موجود، دو علامات ہوا اور شجر معاشرت سے جڑے دو تہذیبی ستونوں پر ایک دل گرفتہ کلام ہے ۔شجر کی علامت نئی ہے نہ ہی ہوا کی تاہم اس کی کثیر الجہتی تفہیم تب ہی ممکن ہے جب قاری اپنے عمرانی منظر نامے سے جڑا ہو۔شجر کی علامت مرکزیت کی طرف اشارہ کررہی ہے ، اور ہوا اس ہایپر رئیل منظر نامے کی طرف کلام ہے جس سے معاصر مِنی نیریٹوز کا فکری مباحثہ چل رہا ہے۔یہ بالکل وہی صورتحال ہے جس کی طرف اشارہ عمران شاہد بھنڈر نے اپنی کتاب فلسفہ مابعد جدیدت میں ویبر کے حوالے سے کیا تھا (صفحہ نمبر ۴۶)

’’ تخصیص کے عہد میں ثقافتی اور سماجی سائنسز پر تحقیق جب ایک بار مخصوص اقدامات سے کسی موضوع کو مرکز بنا لیتی ہے اور اصولوں کی بنیاد پر ایک طریقہ ء کار وضع کر لیتی ہے تو ، وہ اس کو ہی حتمی طریقہ کار سمجھنے لگتی ہے ۔ ۔۔۔۔لیکن پھر ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب ماحول میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ عدم انعکاس کی بنا پر اختیار کیا ہوا نقطہ ء نظر غیر یقینی ہوجاتا ہےـ ‘‘
عمران عامی کے ہاں علامت کے ساتھ تعلق کی وہی اساسی بائنری تشکیل پاتی ہے جو جان لاک کے ہاں ملتا تھا ۔وگرنہ سماجی اظہاریوں پہ متشکل تخلیقی اظہاریوں پہ لا یعنیت کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ معاصر منظر نامے پہ مزید کلام کرتا ہوا ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے:

یہ کون راگ میں الجھا دیے گئے ہم لوگ
کسی کا سر نہیں ملتا کسی کی تال کے ساتھ

ایک سماج جس میں مابعدالطبیعاتی اصولوں پہ قدر ِ تعین کا چلن ہو وہاں آفاقی قدروں کے متوازی ایسے پراسرا خارجی تہذیبی عوامل کا ظہور ، جن سے انکار فکری سطح پر ممکن نہ سہی مشکل ضرور ہو، اس پہ وجودیت اور لاوجودیت کے درمیان کی لاتعلقی پہ علامتی سطح پر ایک مربوط بیانانیہ سماجی تناظر میں فلسفہ ء حیات و مابعد حیات کی طرف اشارہ کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شاعر کے ہاں داخلی تہذیبی عوامل کی شکستگی کا المیہ کتنا اہم ہے۔ مذکورہ بالا شعر اس فکری انبساط پہ شاعر کا اظہارِ لاتعلقی بھی ہے جو جس کی تہذیبی عمر ثانیوں میں شمار کی جا سکتی ہے تاہم ساتھ ساتھ شاعر کے ہاں باطنی کم عملیت کا اعتراف بھی ہے جو بحیثیت ایک سماجی رکن کے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر درپیش ہے۔ ایک اور شعر جس سے معروضی عنصر کی گرفت پہ غیر حقیقی بیانیوں کی اثر انگیزی نمایاں ہے پیش ِ خدمت ہے:

ورنہ یہ سیلِ آب لے جاتا
آگ نے شہر کو بچا لیا ہے

اس عجیب و غریب شعر میں شہر کا اصطلاحی مفہوم اپنی موت مر گیا اور غیر حقیقی بیانیے کے زیر اثر سرمایہ دارانہ نظام کے مہابیانیے کا ایک غیر منطقی استدلال ہے کہ تہذیبی کترنوں کو دامن سے لگا کر نئے سرمایہ دارانہ سماج میں حقیقی ماخذِ حیات کا تعلق محض ابہام متصور ہوگا ، نئی سماجی حقیقت وہی ہے جو نئے عالمی منظر نامے میں فٹ بیٹھ سکے ۔ ہر دو سطح پر روایت اپنے تہذیبی معنی کھو چکی ہے اس لیے سماجی اکائیوں کی زبان میں اس مہابیانیے کو اعلانیہ تسلیم کرنے پہ اکسانا ہی نئے سماج کی زمانی ترتیب ہے ۔ بھلے آفاقی قدروں سے جڑت ہو ، یا روایتی تہذیبی عوامل میں ،موجود کی نئی تفہیم قابلِ قبول تصور کرانا ایک لحاظ سے اپنے ہاں اس، این جی او ، زدہ فکر کی طرف اشارہ بھی ہے جو نئے فکری استعمار کے قیام میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔اس منظر نامے کی قبولیت نشاط انگیز تو ضرور ہے تاہم فکری موت کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ شہر سے مراد cosmopolitanism کی استعماریت بھی ہے جو مقامیت کی نوآبادیات کا عمل ہے۔ مغرب میں جدیدیت اور ہمارے ہاں نام نہاد ترقی پسندیت کے بعد عالمی استعمار کے مہروں کو ایک نئے فکری تشکیل کیلیے مابعد الجدیدیت کے زیر اِ اثر جس بیانیے کی احتیاج تھی اس کی شکل ما بعد نو دو گیارہ عالمی سطح پر یک طرفہ دہشت گردی کے بیانیے کی صورت میں نظر آئی ۔ اور اس کے عالمی سماج پہ اثرات موجود کے منظر نامے پہ بہت گہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔قطعِ نظر اس کے کہ War on Terror نے عالمی سماج کو کیا دیا ، اس کے اثرات اسلامی ممالک اور خاص کر Micro سطح پر پاکستان میں کس درجہ تک محسوس کیے جا سکتے ہیں اس پہ درج ذیل شعر ایک فکر انگیز تبصرہ ہے:

پہلے ’’کچھ‘‘ لوگ پرندوں کے شکاری تھے یہاں
اب تو ’’ہر‘‘ آدمی صیاد بنا پھرتا ہے

موجود کے منظر نامے میں ایک مرکز خیز سماج میں لامرکزیت کے بیانیے کی بنیاد پہ نہ صرف سماجی اکائیاں اور سماجی ادارے کمزور ہوئے بلکہ اس تفاوت کے زیرِ اثر سماج جس بے امنی اور غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہُوا اس پہ بادی النظر میں تکثیری مباحث پہ حرف گیری سے زائد کی طرف اشارہ کرتا ہوا یہ شعر سماجی مبصر کی توجہ اس طر ف مبذول کرانے کی طرف میں کامیاب نظر آتا ہے کہ بہر حال اس سارے میں انسان بطورِ ’ شے یعنی پراڈکٹ کے غلط استعمال ہُوا ہے یعنی مس یوز ہوا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں یرغمال سماج میں انسانی قدروں کی بے حرمتی اور بے قدری ہی دراصل اس نظریہء ضرورت پر کلام ہے جس نے Preemtive Strikes جیسی اصطلاح کو بھی اس نام نہاد تہذیبی سماج میں قبولِ عام کی سند دے دی حالانکہ اس کے پیچھے لسانی politics کے مہروں کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے تاہم اس سارے سے انکار بہر طور ممکن بھی نہیں ۔ ایک اور خوبصورت شعر جس پر عامی نے نہایت فنکارانہ مہارت سے مقامی استعمار کے اثرات اور صحافیانہ Imperialism کی طرف اشارہ کیاہے :

ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں

اس شعر میں ’’ جب‘‘ بھرپور معنوی صورت میں آیا ہے ۔ ہمارے ہاں مقامی استعمار نے جب تک فکری سطح پر سماجی اظہاریوں پہ پابندی عائدرکھی تو معاشرتی سطح پر جھوٹ قابلِ قبول نہیں تھا ، لیکن جب سے فکری اظہاریوں کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی ہیں تو چاروں سمتوں سے اس غیر حقیقی منظر نامے کی تشکیل کا سامنا ہے جس کاآفاقی قدروں اور روایتی تہذیبی عوامل سے شدید ٹکراؤ ہے باوجودیکہ اس کو سما ج قبول رہا ہے ۔ اس سے جو تہذیبی منظر متشکل ہورہا ہے اس میں سماجی ہئیتوںکا باہم اختلاط ایک شدید نفسیاتی اور فکری بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلاشبہ اس عدم مرکزیت پہ تبصرہ ہے جس پر کچھ حد تک مغرب نے قابو پالیا ، لیکن قبولنے سے عاجز ہے ۔ عمران عامی کے ہاں مابعد الطبیعات پہ لاعلمی میں یک طرفہ اور کچا پکا تبصرہ نہ ہونے کے برابر ہے اس کے ہاں موجود کے منظر نامے کی فکری تشکیل اس نوعیت کی ہے جس سے اس کے ہاں ایک بیدار مغز تخلیق کار کا پتہ چلتا ہے اور استعاراتی نظام اس کے تصورِ سماج کو تصویر کرنے میں کامیاب رہا ۔ عامی کے اس شعر کے ساتھ اپنے تبصرے کو ختم کرتاہوں جو ایک شعر سے کہیں زیادہ ہے:

یہ شہر جیسے خلا میں کہیں معلق ہے
زمیں پہ چلتے نہیں اپنے پاؤں دھر کے لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment