سید آل احمد ۔۔۔ یاد آؤں گا اُسے‘ آ کے منائے گا مجھے

یاد آؤں گا اُسے‘ آ کے منائے گا مجھے
اور پھر ترکِ تعلق سے ڈرائے گا مجھے

آپ مسمار کرے گا وہ گھروندے اپنے
اور پھر خواب سہانے بھی دکھائے گا مجھے

مجھ کو سورج کی تمازت میں کرے گا تحلیل
اور مٹی سے کئی بار اُگائے گا مجھے

اپنی خوشبو سے وہ مانگے گا حیا کی چادر
زیبِ قرطاسِ بدن جب بھی بنائے گا مجھے

ربِ ایقان و عطا! عمر کے اس موڑ پہ کیا
راستے کرب کے ہموار دکھائے گا مجھے

میں کڑی دھوپ کا سایہ ہوں کڑے کوس کا ساتھ
بھولنا چاہے گا وہ‘ بھول نہ پائے گا مجھے

میری شہہ رگ پہ تمسخر کی چھری رکھے گا
گاہے پلکوں پہ تقدس سے سجائے گا مجھے

آنکھ لگ جائے گی جب ہجر کے انگاروں پر
نیند میں آ کے دبے پاؤں جگائے گا مجھے

تو بھی زنجیر پہن لے گا انا کی اک دن
میری غزلیں مرے لہجے میں سنائے گا مجھے

میں تو ہر بار مراسم کی بنا رکھتا ہوں
سوچتا ہوں کہ کبھی تو بھی منائے گا مجھے

جن سے ملتا ہو سراغِ رہِ منزل احمدؔ
وہ لکیریں مرے ہاتھوں پہ دکھائے گا مجھے

Related posts

Leave a Comment