اکرم کنجاہی ۔۔۔۔ قرۃ العین حیدر

قرۃالعین حیدر

یہ الگ بحث ہے کہ اُردو میں نیا افسانہ کیا ہے ؟ مگر بہت سے نا قدین کے بر عکس جنہوں نے کرشن چندر کے ’’غالیچہ‘‘ یا منٹو کے ’’پھندنے‘‘ کو نئے افسانے کا آغاز قرار دیا ہے، محمود ہاشمی اختلاف کرتے ہوئے قرۃ العین کو نئے افسانے کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہیں۔انہوں نے تقسیم ہند سے قبل لکھنے کی ابتدا کر دی تھی مگر آزادی کے بعد جو کچھ لکھا وہ آئندگان کے لیے نشانِ راہ ثابت ہوا۔شروع کی کچھ تخلیقات میں اسلوب روایتی تھا مگر بعد ازاں ، انہوں نے اپنے بھاری بھر الوبِ بیاں اور علمی نظریے، سماجی اور تاریخٰ شعور کی بدولت اُردو فکشن پر ان مٹ نقوش مرتب کیے۔ایسا اندازِ تحریر جس میں بہت سی زبانوں خاص طور پر فارسی اور انگریزی کے اثرات تھے۔یوں اُن کے فکشن میں وقت گزرنے کے ساتھ کچھ ثقالت آتی گئی۔
وہ ایک ایسی فکشن نگار ہیں کہ پدر سری معاشرے میں صنفی تفریق سے بالا تر ہو کر سب نے جن کی عظمت کا اعتراف کیا۔قرۃ العین حیدر ۲۰؍ جنوری ۱۹۲۰ء (بعض نے سن پیدائش ۱۹۲۸ء لکھا ہے) کے روز علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔آپ کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔آپ کے والد سجاد حیدر یلدرم کا شمار اُردو ادب کے اہم اور ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔آپ کی والدہ نذر زہرا (نذر سجاد حیدر) بھی اُردو کی چند ابتدائی ناول نگار خواتین میں شمار ہوتی ہیں۔اُن کا پہلا افسانہ ’’یہ باتیں‘‘ ۱۹۴۴ء میں لاہور کے رسالہ ہمایوں میں شائع ہوا۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئیں۔ وزارتِ اطلاعات، پاکستان ہائی کمیشن، لندن اور پی آئی اے وغیرہ میں ملازمت کی مگر ۱۹۶۱ ء میں بہ وجوہ واپس بھارت چلی گئیں۔کچھ ادب شناسوں کا خیال ہے کہ دل کے معاملات میں ناکامی کی وجہ سے شادی بھی نہ کی اور الگ تھلگ ہو گئیں۔انہوں نے ناولوں کے علاوہ، افسانے، ناولٹ، مضامین اور سفر نامے لکھے اور تراجم بھی کیے۔
اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں شیشے کا گھر، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، جگنوؤں کی دنیا بھی اشاعت پذیر ہوئے۔تقسیمِ ہند کے بعد انسان کی انسان پر ظلم و زیادتی، وحشت و بربریت، رشتوں کی تذلیل، بے ضمیری، جذبات و احساسات کی بے وقعتی اُن کے اہم افسانوی موضوعات رہے۔ انسانی اخلاق کے زوال کی چلتی پھرتی درد ناک تصویریں اُن کے ابتدائی افسانوں میں نظر آتی ہیں۔وہ گہرا تاریخی و تہذیبی شعور رکھتی تھیں۔ انہوں نے باقاعدہ پلاٹ پر افسانوں کی بنیاد رکھنے کی بجائے اکثر شعور کی رو سے کام لیا ہے کہ ایک کردار حال میں جیتا ہے مگر کبھی وہ ماضی میں چلا جاتا ہے اور اُس کی باتیں دہرانے لگتاہے۔ مشہور ناولٹ سیتا ہرن ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا، جس کے بعد ہاؤسنگ سوسائٹی، چائے کے باغ، دل ربا، اگلے جنم مجھے بٹیا نہ کیجو، فصلِ گُل آئی یا اجل آئی بھی شائع ہوئے۔، اُن کے سفر نامے ستمبر کا چاند رپورتاژ، کوہ دماند، اور گلگشت کے نام سے منظرعام پر آئے۔ انہوں نے جن غیر ملکی ناولوں کے تراجم کیے اُن میں:ـہنری جیمز کا ہمیں چراغ ہمیں پروانے، ویرا پانوا کا یودوکیہ، اعتما توف چنگیز کا ماں کی کھیتی، شولوخوف کا ڈان بہتا رہا، شولوخوف ہی کا آدمی کا مقدر، آر فریر مین کا ڈنگو۔سالِ اشاعت کی ترتیب سے اُن کے ناول کچھ اِس طرح ہیں:میرے بھی صنم خانے ۱۹۴۹ء، سفینۂ غمِ دل ۱۹۵۴ء، آگ کا دریا ۱۹۵۸ء، کارِ جہاں دراز ہے (تین حصے، سوانحی ناول ۱۹۷۸ء)، آخرِ شب کے ہم سفر ۱۹۷۹ء،گردشِ رنگِ چمن ۱۹۸۸ء، شاہراہِ حریر اور چاندنی بیگم ۱۹۸۹ء۔
قرۃالعین حیدر کا ناول نگاری کا سفر ۱۹۴۹ء سے شروع ہوتا ہے۔اِس ناول میں انہوں نے اودھ کے جاگیر داروں کی کہانی بیان کی ہے۔اُن کی روشن خیالی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔طبقۂ اشرافیہ کی خواتین اُن کا خاص موضوع تھیں۔ وہ آزادی کے بعد ابھرنے والے ان ناول نگاروں میں شامل ہے جنہوں نے مسلسل لکھا۔ جب انہوں نے’’میرے بھی صنم خانے‘‘ پیش کیا تو اس وقت فضامیں عصمت چغتائی، عزیز احمد اور کرشن چندر کا نام گونج رہا تھا انہوں ایک طرف تو جاگیردار طبقے کی کھوکھلی تہذیب پر طنز کی ہے تو دوسری طرف موت کے تصور، زندگی کی بے ثباتی اور وقت کی ابدیت کو بھی موضوع بنایاہے۔ وقت کا تصور’’آگ کا دریا‘‘میں زیادہ گہرائی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ مگر میرے بھی صنم خانے میں انہوں نے اس پہلی اینٹ رکھی ہے۔’’سفینہ غم دل‘‘ پہلے ناول کی کئی لحاظ سے توسیع کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کے کردار بھی اُسی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی سوچیں اور افعال بھی یکساں ہیں۔ سب اپنی ذات میں گم ہیں اور اپنے اپنے انجام سے بے خبر اپنے بنائے ہوئے راستے پر چلے جا رہے ہیں۔ سفینہ غم دل کے حساس کردار، موت کے تصور سے نبرد آزما ہیں۔ وہ موت کو سمجھنا چاہتے ہیں اس لیے کہ خارجی حالات،تہذیبی روایات کو ملیامیٹ کرنے لگے ہیں۔ اس کا جواب مذہب دے سکتا ہے لیکن ان کے کردار دانشور ہیں،وہ اپنی بساط کے حساب سے اس کا جواب مانگتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وقت آہستہ آہستہ انہیں موت کی طرف دھکیل رہا ہے، زندگی مختصر ہے اور انسان اُس سے چمٹا رہنا چاہتا ہے۔اُن کے ناولوں میں پلاٹ کے ساتھ ساتھ کردار نگاری میں بھی ماضی سے انحراف ملتا ہے۔انہوں نے مغربی اصولوں کو سامنے رکھ کر کردار نگاری کے نئے تجربات کیے۔خود قراۃ العین حیدر کا اسلوب شروع کے دو ناولوں کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔ سفینہ غم دل کا یہ کنٹریبیوشن کیا کم ہے کہ وہ قرۃالعین حیدر کوئی اچھی جست لگانے میں مدد دیتا ہے۔قرۃالعین حیدر نے چاندنی بیگم میں مڈل کلاس کے خاندانوں کی تقسیم ہونے اور پاکستان بنگلہ دیش میں ہونے پر ان کے نئے مسائل کی عکاسی کی ہے۔ آوارہ وطن بنگلہ دیشیوں کی خانہ بربادی اور دربدری کو بھی انہوں نے خالصتاً انسانی سطح پر برتا ہے۔
اُنہوں نے اُردو فکشن کو اعتبار بخشا۔ افسانے اور ناول کے ساتھ ساتھ ناولٹ کو بھی کامیاب تجربے کیے اور اپسے وقار عطا کیا۔اُن کے تمام ناولٹ خوب ہیں مگر ’’سیتا ہرن‘‘ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اِس ناولٹ میں ایک خاص کردار کی نفسیات کا مخصوص پس منظر میں مطالعہ کیا ہے۔سوسائٹی کے اعلیٰ طبقے پر نات کی ہے۔سیہتا کا کردار بے حد پیچیدہ ہے جسے موصوفہ نے ہُنر مندی سے تخلیق کیا ہے۔اُس کی ذات کی پیچیدگیاں اور ایک نا معلوم سے خواہش اُسے قمر السلام کے قریب کر دیتی ہے۔وہ جمیل کی غیر موجودگی میں اُس سے ملتی ہے۔جمیل کو جب قمر کی زبانی معلوم ہوتا ہے تو وہ سیتا کے گھر سے نکال دیتا ہے۔قمر اُسے نہیں اپناتا اور واپس جمیل کے پاس جانے کے لیے کہتا ہے۔پھر اپس کی زندگی میں کئی مرد داخل ہوتے ہیں۔ اِس طرح کے جذباتی و جنسی نا آسودہ کردار عصمت ، بانو قدسیہ اور کئی دیگر فکشن نگاروں کے ہاں بھی مل جاتے ہیں۔
انہوں نے آغاز کیا تو پیش روؤں میں رومانی افسانہ نگاروں کا نام گونج رہے تھے۔اسی رومانی ماحول میں ابتدا تو اعلیٰ طبقے کے موضوعات سے کی ، بعد ازاں متوسط اور زیریں طبقے کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ تاریخ اور سماجیات کے گہرے مطالعے نے اُن کے فکر و فن کو جلا بخشی۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘ اردو فکشن کی پہلی تخلیق کہا جا سکتا ہے جس میں انسان کی داخلی کیفیات کی تفتیش کو موضوع بنایا گیا۔پریم چند نے حقیقت نگاری کو اپنے ہاں جگہ دی مگر قرۃ العین نے سوچ کا رخ خارجیت سے داخلیت کی طرف موڑ دیا۔جس طرح ممتاز شیریں نے اُردو افسانے کو مغربی افسانے کے برابر لانے کی کوشش کی تھی اسی طرح قرۃ العین حیدر نے آزاد تلازمۂ خیال یا شعور کی رو اور اندرونی خود کلامی وغیرہ کی تیکنیک سے اُردو ناول کو مغربی فکشن کے ہم پلہ بنانے کی کوشش کی۔
’’دل ربا‘‘ اُن کے نمائندہ ناولٹ میں سے ایک ہے جس میں ہندوستان کی تاریخ کی انیسویں صدی کے آخری ایام کی یاد تازہ کی گئی ہے کہ جب یہاں جاگیر داری نظام کی تہذیب دم توڑ رہی تھی اور انگریز ایک نئی معاشرت لے کر آئیے تھے۔اِس ناولٹ میں انہوں نے دو طبقات کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ٹکراؤ کو موضوع بنایا ہے۔اِس ناول کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اِس میں اِس اہم بات کی طرف بھی اشارے ہیں کہ وہ ایک طبقہ جو ماضٰ سے چپکا ہوا تھا اور نئے میلانات سے خائف تھا، وہ نتیجہ کے طور پر پیچھے چلا گیا۔ یوں اُردو افسانے کی تاریخ کی وہ چین ایک شخصیات میں سے ہیں جن کو کسی ادبی تبدیلی اور اپص کے دور رس اثرات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
’’آگ کا دریا ـ‘‘ برصغیر کی آزادی کے بارہ سال بعد وجود میں آیا کہ ادب میں نئے نئے میلانات و رجحانات اور تحریکات کے تحت تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس ناول کی اشاعت سے پہلے قرۃالعین حیدر کے ناول میرے بھی صنم خانے اور سفینہ دل سے منظر عام پر آ چکے تھے۔ انہوںنے ہمیشہ تازہ دم ہونے کا تاثر دیتے ہوئے آخرِ شب کے ہم سفر، گردشِ رنگِ چمن اور چاندنی بیگم جیسے ناول پیش کیے، جن پر آج تک بحث ہورہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اکثر نقادوں کا خیال ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘کی منفرد حیثیت کو کوئی دوسرا ناول نہیں پہنچ پایا۔ آگ کا دریا کا قصہ اڑھائی ہزار سال پر محیط ہے۔ اس میں ایک سے کہیں زیادہ ٹیکنیک سے کام لیا گیا ہے۔ جن میں شعور کی رو کا تھوڑا بہت استعمال معنویت سے معمور ملتا ہے۔ ’’لندن کی ایک رات‘‘ ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھا جانے والا اولین ناول تھا جسے ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں سجاد ظہیر نے لندن کے زمانہ طالب علمی میں تصنیف کیا تھا۔ اُردو میں شعور کی رو کی تکنیک کو پہلی بار اس ناول میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعض کردار ماضی اور حال میں ایک ہی وقت میں جیتے ہیں۔ اس طرح کہ کبھی اچانک ماضی کا کوئی واقعہ یا کوئی بات دہرانے لگتے ہیں اور پھر ایک دم حال میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ لندن کی ایک رات لندن میں زیر تعلیم ہندوستانی نوجوانوں کی ایک رات کی کہانی ہے۔ قرۃالعین حیدر پر ورجینیا وولف کے مشہور زمانہ ناول اورلینڈو کے اثرات بہت مرتب ہوئے جو ۱۹۲۸ء تک انگلینڈ کی تہذیبی تاریخ کے تین سو سالوں پر محیط ہے، آخر میں وہ عورت بن جاتا ہے۔ آگ کا دریا میں گوتم نیلمبر، ہری شنکر، کمال اور چمپا کی جنس نہیں بدلتی تاہم یہ لوگ اڑھائی ہزار سال کی سحر میں مبتلا کر دینے والی معاشرتی زندگی کے اہم ادوار میں موجود رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اورلینڈو کا کینوس آگ کا دریا سے بہت مختصر ہے۔
آگ کا دریا کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ قدیم ہندوستانی تاریخ سے مسلم دور حکومت کی ابتدا تک۔دوسرا حصہ مسلم دور عروج تک ہے۔ تیسرا حصہ اودھ کے بادشاہوں کے دورِ زوال پر مرکوز ہے اورآخر ی حصہ تقسیم وطن سے کچھ بعد تک۔ ناول میں گوتم نیلمبر ایک انسان سے زیادہ قدیم ہندو تہذیب کی علامت بن کر ابھرتا ہے اس کے ساتھ ہری شنکر ایک سائے کی طرح ہے۔ دوسرے حصے میں گوتم نیلمبر چلا جاتا ہے اور ابوالمنصور کمال الدین اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ وہ علم کا دیوانہ ہے اور جنگجو بھی۔اس کے کردار میں عرب کا جلال اور عجم کا جمال دونوں سے ملتے ہیں۔ ابتدا میں وہ بھی علم کی جستجو میں سرگرداں رہتا ہے لیکن جنگ اور تباہی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس ساری تباہی و خونریزی سے ابوالمنصور کمال الدین کی روح پژ مردہ اور جذبے مضمحل ہو جاتے ہیں۔تیسرے حصے میں مصنفہ نے مغلیہ حکومت کے زوال کے اثرات کو لیا ہے۔ایک مرتی اور مٹتی ہوئی تہذیب پر بات کی ہے۔ جس کا تعلق خاص طور پر اودھ کے نوابین کی مجالس کہ جس میں لکھنؤ مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ بن گیا تھا جس نے تاریخ کے صفحات میں سنہری باب کا اضافہ کیا۔آخری حصے میں انگریزوں کا عہد اور تقسیم کے بعد کے چند مثالوں کو پیش کیا گیا ہے اس پورے عہد میں جاگیردارانہ معاشرہ اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے جس کی اپنی چند اقدار ہیں جو خاص کلچر، خاص مزاج کا نمائندہ ہے۔ نیلمبر چمپا کمال ہری شنکر وغیرہ تمام کردار ایک مسلسل داخلی اور زمینی زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب ہی لوگ جا گیردارانہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے عملی ان کا مزاج ہے۔ یہ نوجوان آئیڈیلزم سے سرشار ملک کی آزادی اور معاشی تنظیم نو کے مسئلے پر نہایت رومنٹک قسم کے خیالات کے حامل ہیں۔اِن کے کرداروں کا اپنا ایک مخصوص طبقہ ہے لیکن تقسیم ہونے کے بعدنوجوان بے بس اور لاچار ہو کر وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ بہنے لگتے ہیں۔کوئی اعلیٰ افسر بن جاتا ہے،کوئی عہدے کی لالچ میں پاکستان چلا جاتا ہے، کوئی نیشنلسٹ ہے اور وہ وہیں پر ہندوستان میں رہنا پسند کرتا ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں قدیم ہندو کلچر کا احیاء کیا جارہا تھا اور آزادی کو مستحکم بنانے کے نام پر مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبہ سے باہر نکالتے جا رہے ہیں۔
آگ کا دریا میں ہندوستان میں بودوباش اختیار کرنے والی سب قوموں کے طرز زندگی اور اس کے طرز رہائش اور ان کے عروج و زوال کی کہانی بیان کی ہے۔’’آگ کا دریا‘‘فکر کی آبیاری کرنے والا ناول ہے۔یوں لگتا ہے کہ ایک ہی ناول میں پوری کائنات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس میں ہم بعض سوالات سے عجیب الجھتے ہیں جیسے انسانی آزادی۔اس ناول میں تاریخ کا مطالعہ اور اپنے اطراف کا تجزیہ یہ بتاتاہے کہ انسان کا اس سطح پر پہنچنا جہاںوہ مطلق طور پر اپنی سوچ اور عمل میں آزاد ہو جائے شاید ناممکن ہے۔پروفیسر شمیم حنفی نے کہا تھا کہ قرۃالعین حیدر محض لکھنے کے لیے نہیں لکھتیں، ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی بات ضرور ہوتی ہے۔ انہوںنے اپنے افسانوں میں خاص نوعیت کی دانشوری نہیں، سماجی آزادی نہیں، فکر و جذبے کا شعور کی رو کے فنی اسلوبیاتی اور ٹیکنیکی اظہار کے تحت احساس دلایا اور آگ کا دریا میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے رومانس کو فکشن میں سمو کر تاریخیت کے حقیقی پیٹرن کو واضح کیا۔ ادبی دانشوروں کا خیال ہے کہ قرۃ العین حیدر کو نوبیل انعام مل جاتا تو یہاں کے اہم نثر نگاروں میں تحریک پیدا ہوتی۔ ۱۹۸۷ء میں اپنے ایک انٹر ویو میں قرۃ العین حیدر نے کہا تھا آپ سے کہہ رہی ہوں نا کہ کبھی کوئی کریٹیو رائٹر سیریز اپنے سامنے رکھ کر نہیں لکھتا۔
اُن کا پہلا ناول ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ اُردو کے چند اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔، اس ناول کا موضوع تقسیم ہند اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔ قرۃالعین حیدر نے اس ناول میں اودھ کی مٹتی ہوئی تہذیب کی تصویر اپنے مخصوص انداز میں پیش کی ہے جس سے وہاں کی ثقافتی اور تہذیبی زندگی آئینے کی طرح نمایاں ہوجاتی ہے۔ جہاں صرف سخن کی محفلیں گرم ہوتی تھیں۔ گو متی کا دلکش کنارہ اور اس کا بانکپن ہوتا ہے۔ امرود کے باغیچے بھی اپنی بہار دکھلاتے ہیں۔ خود وہ اس ناول کے متعلق کہا کرتی تھیں، میرے بھی صنم خانے انسانی ٹریجڈی کی داستان ہے اور یہ چیزیں ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں رونما ہوئیں جس کے سبب سینکڑوں خاندان، لاکھوں افراد کو خون سے لت پت اور اور تہہ تیغ کیا گیا اور ایک ایسی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو پامال کر دیا گیا جو صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔یہ ناول دوسری جنگ عظیم کے سے شروع ہوکر تقسیم ہند پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔ مصنفہ نے جاگیردارانہ طبقے کی خوشحالی اور اس طبقے کی بدحالی اور زوال پذیری کے ایسے نقوش ابھارے ہیں جن کے پیچھے جاگیردارانہ نظام اور خاندان کی روایتی رسم و رواج دم توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔قرۃ العین حیدر نے ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ میں تقسیمِ ہند کے جس ہندو مسلم مشترکہ کلچر کے نوحے لکھے ہیں، وہ اُس عہد کے بہت سے دیگر فکشن نگاروں کے ہان بھی اپنے اپنے رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ رضیہ سجاد ظہیر نے بھی ایک مٹتی ہوئی تہذیب کی بات کی ہے۔ جیلانی بانو نے بھی تقسیم کے وقت ہن ایسے دو ومسلم خاندانوں کے بچھڑنے کی منظر کشی کی ہے کہ جن کے درمیان بڑی محبت اور دوستیاں تھیں، بہترین ہمسائیگی تھی۔ سانجھے دکھ سکھ تھے ۔کرشن چندر نے اِس ناول سے متعلق اچھی رائے نہیں دی تھی۔ اُن کا کہناتھا کہ اِس میں کچھ بھی تو نہیں سوائے فیشن ایبنل پارٹیوں کے تذکرے کے۔ ایک عجیب رد عمل تھا ایک ایسے ادیب کی طرف سے جو خود بھی اعلیٰ درجے کا افسانہ نگار اور ناول نویس تھا۔حالاں کہ اپں کا مذکورہ بالا موقف اِس وجہ سے درست نہیں کہ قرۃ العین حیدر نے تو بڑ؁ طبقے کے ساتھ ساتھ اودھ کے ایک غریب خاندان کی لڑکی کو ’’اگلے جمن موہے بٹیا نہ کچیو‘‘ میں امر بنا دیا۔
’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ اُن کا چوتھا ناول تھا جو دراصل اُن کے خاندان کا سوانحی ناول ہے جو تین جلدوں میں شائع ہوا۔’’آخر شب کے ہمسفر‘‘ اُن کا پانچواں ناول اس نقطہ نظر سے اہم ہے کہ اس ناول میں ہندوستان کی جنگ آزادی میں شریک ہونے والی نسل ابھر کر سامنے آتی ہے مگر اِس ناول میں انہوں نے آزادی کو کمیونزم کے رنگ میں پیش کیا ہے اور اِس کا ہیرو رومانوی نہیں انقلابی ہے۔اس کے علاوہ اس سے اگلی نسل کے سیاسی و سماجی حالات زندگی کو پیش کیا گیا ہے جو بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں پوری طرح حصہ لیتی ہے اس طرح مصنف نے ژرف نگاہی کے ساتھ اس عہد کے واقعات و حالات کا احاطہ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ اُن کا چھٹا ناول تھا۔ دہلی میں ایک شخص دلدار علی برلاس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے جو نواب فاطمی کے نام سے مشہور ہوتی ہے۔ دلدار علی برلاس مرنے سے پہلے بیٹی کی ذمے داری اپنے دوست مرزا سبطِ احمد کو سونپ جاتا ہے اور اپنی ساری دولت بھی اُس کے حوالے کر دیتا ہے مگر وہ ساری دولت ہڑپ کر کے نواب فاطمی کو ملازمہ کے طور پر کہیں دے دیتا ہے۔جہاں وہ اپنی قسمت کو روتی رہتی ہے۔ مصنفہ ناول میں اپنا فلسفۂ حیات ایک کردار عندلیب سے بیان کرتی ہے۔ عورتوں کی مظلومیت اور اُن کے حقوق کی پامالی بھی قرۃلعین حیدر کے اہم موضوعات میں سے ہے۔’’چاندنی بیگم‘‘ اُن کا ساتواں ناول ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا۔ اِس میں زندگی کی بے ثباتی کا حال بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انسان ساری عمر گھروندے بناتا رہتا ہے اور وقت کی ایک لہر سب غارت کر دیتی ہے۔اِس میں بیرسٹر اظہر علی، اُن کی بیوی بدرالنسا، بیٹا قنبر علی جاگیردارانہ تناظر میں پیش کیے گئے ہیں۔ اِس کے علاوہ صفیہ اور چاندنی بیگم کے کردار ہیں۔ ماں کے مرنے کے بعد چاندنی بیگم بے سہارا ہو جاتی ہے تو گھر سے نکال دی جاتی ہے۔وہ کپڑے سلائی کرنا شروع کر دیتی ہے۔ بینائی متاثر ہو جاتی ہے۔ دیا سلائی جلانے لگتی ہے تو رضائیوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ قنبر، اُس کی بیوی اور سارا گھر جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔
چاندنی بیگم میں موضوع کو دو طرف سے پیش کیا ہے ایک یہ کہ مغربی پاکستان جا کر آباد ہونے والے بہت سے افراد جو ہندوستان میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر گئے تھے۔حالات سے بے خبر اور اپنے خاندان اور احباب کے یارومددگار چھوڑ کر مغربی پاکستان ہجرت کر جانے سے ان کے دلوں پر کیا گزری ہوگی اور وہ کن کن حالات سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ مشرقی پاکستان جاکر شہریت کا حق حاصل کرنے والوں کے ساتھ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے دوران مقامی اور مہاجر بنگالی کے مابین کیسے کیسے خونی مقابلے ہوئے اور کیا کیا ان پر مصیبتیں نازل ہوئیں، اس کے علاوہ پاکستان ہجرت کرنے والوں کے دل پر نئے وطن میں دولت و جائیداد کی لوٹ کھسوٹ نے کس طرح کے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان تمام پیچیدہ مسائل کو باریک بینی سے مشاہدہ کر کے نمایاں کیا گیا ہے۔قرۃالعین حیدر نے ایک نئی حقیقت نگاری کی روایت قائم کی جسے تاریخی حقیقت نگاری کا نام دیا جاسکتا ہے اس اصطلاح کو کسی خامی کے بجائے فنکار کا مخصوص ذہنی رویہ سمجھنا چاہیے۔ مصنفہ کے ذہن پر تقسیم کے گہرے اثرات پڑے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس کی زیادہ تر تحریروں میں تقسیم کا ذکر کسی نہ کسی صورت میں ضرور ملتا ہے۔ میرے بھی صنم خانے اوراُس سے زیادہ سفینہ غم دل میں تقسیم کی تباہ کاریوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
اُنہوں نے ارادۃََ اپنی تخلیقات میں تانیثیت کا پرچم کہیں بھی بلند نہیں کیا اور نہ اُسے کو اپنے پسندیدہ اور مرغوب موضوع کے طور پر پیش کیا مگر اُنہوں نے انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی بدلتی شبیہ دکھائی ہے۔ حالات اور زمانے کی ستم ظریفی اور جبر کے آگے عورت کی کمزوری اور مظلومیت ، نارسائی اور پسپائی کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

Related posts

Leave a Comment