بشری رحمن
بشری رحمن۱۹۴۴ ء میںبہاول پور میں پیدا ہوئیں۔اُردو، پنجابی اور سرائیکی میں لکھتی ہیں۔ اُن کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ناول نگار، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار، شاعرہ، مقررہ، سیاست دان اورسماجی خدمت گارڈیڑھ درجن کے قریب ناول اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔مثلاً بت شکن، چپ، پشیمان،پیاسی،چارہ گری،خوبصورت،عشق عشق،قلم کہانیاں، مولانا ابو الکلام آزاد، ایک مطالعہ، چاند سے نہ کھیلو،کائنات بشیر۔اُن کے کئی ناولوں کوٹیلی وژن چینلز نے ڈرامائی تشکیل دی۔ پاکستان میں پہلی باقاعدہ خاتون کالم نگار جنگ اور نوائے وقت میں ’’چادر، چار دیواری اور چاندنی‘‘ بے شک اُنہوں نے نام نثر ہی میں کمایا ہے مگر شعر کہنے کا ہُنر بھی جانتی ہیں، اُن کی شعری کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔اُن کی والدہ نصرت رشید شاعرہ تھیں۔اُنہوں نے ثابت کیا کہ صحراؤں میں رہنے والے بگولہ صفت ہوتے ہیں، کچھ کر جانے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر انہوں نے 40 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ سماجی مسائل، طبقاتی اونچ نیچ، معاشرتی کشمکش اورعورت کا استحصال ان کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعے، ناول اور کالم اُردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔
ان کے ناول فرسودہ رسم و رواج میں جکڑی عورت کی مظلومیت کی درد بھری کہانی ہیں۔سماج کے منفی رویوں اورمکروہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی عورت کی بے مثل قربانیوں کوانہوں نے اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔ یہ ایک گداز اور درد مند دل رکھنے والی عورت کی تحریریں ہیں جس نے عورت کی عصمت، عزت اور وقار کے لیے قلمی جہاد کیا۔یہ ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی ہے۔آئیے اُن کے چند افسانوں اور ناولوں پر سرسری نظر ڈالتے ہیں:
’’دل اور دفتر‘‘ پہلا افسانہ:ازدواج کے تعلق اور محبت کے نازک موضوع پر قلم اٹھایا اور خوب انصاف کیا تھا۔اُنہوں نے خود کو کسی تحریک، تصور یا نظریے کا پابند کر کے نہیں لکھا۔ان کے افسانوں کے کردار اکثر محبت کی بے ثمری کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔
کتاب ’چپ کا افسانہ ’توفیقِ ذات‘‘: ایک نوجوان بیوہ ’’تاجور سلطانہ‘‘کی جنسی گھٹن اور نفسیاتی کشمکش کا بیان۔افسانے کے آخر میں گناہِ صغیرہ و کبیرہ کے تعلق سے طویل مکالمہ ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ادب میں مذہبی ٹچ دیا۔اُن کا ناول اللہ میاں جی اسی بات کی دلیل ہے۔
افسانہ ’’مقامِ دل نہیں آیا۔‘‘ ایک پولیٹیکل سیکریٹری کی کہانی ہے جو شہر میں آباد کسی گاؤں کے ایک معمولی سے چوہدری کو سیاست میں لاتا ہے اور وزارت کی کرسی تک پہنچا دیتا ہے۔ چوہدری مال بناتا ہے عاقبت خراب کرتا ہے۔آخری عمر میں طرح طرح کی بیماریاں اُسے گھیر لیتی ہیں، وہ اپنی اکٹھی کی ہوئی آسائشوں کو حسرت سے تکتا رہتا ہے جن کو اپنی بیماری کے سبب استعمال نہیں کر سکتا۔ خود سیکریٹری آخری عمر میں بیماریوں کا شکار رہنے لگتا ہے۔سیاست دانوں کی طرح کئی شادیاں کرتا ہے۔ کئی دنیا سے اٹھ جاتی ہے تو کوئی وفا نہیں کرتی اور آخری عمر میں نو عمری کی محبت کو یاد کرتا رہتا ہے۔بے اولاد رہتا ہے، لہٰذا حرام کمایا ہوا سب مال بیکار۔یہ ایک سیدھا سادہ اور رواں اسلوب میں لکھا گیا افسانہ ہے۔اِس میں صرف اہم بات یہ ہے کہ بشری رحمن خود بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اسمبلی کی رکن رہی ہیں، لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ اُن کے مشاہدات کی صداقت پر شک کیا جائے۔
افسانہ ’’دل کا سورج‘‘ ایک نوجوان وہاب اور اوریورپ میں پلی بڑھی اُس کی پھوپھی زاد فریحہ کہ کہانی ہے۔ وہ پاکستان آتی ہے۔ دونوں کی منگنی ہو جاتی ہے مگر فریحہ کو کسی مصری لڑکے میں دل چسپی ہے لہٰذا واپس جا کر وہ منگنی توڑ دیتی ہے۔یہ ایک یورپ میں پرورش پانے والی لڑکی کی مغربی سوچ کر اجاگر کرتی ہوئی کہانی ہے جو سادہ اسلوبِ بیاں میں کسی علامت و تجرید کے بغیر لکھی گئی ہے۔
’’کڑیاں اور چڑیاں‘‘ ایک بہترین افسانہ ہے جس میں ایک طرف تو ایک مشرقی عورت کا صبر زیرِ بحث لایا گیا ہے جو اپنی بیٹی کے محفوظ مستقبل کے خاطر ساس اور شوہر کے طعنے تشنے سنتی ہے مگر شوہر کی دہلیز نہیں چھوڑتی۔ بعدا زاں اُس کے اِس فیصلے کی تعریف اُس کی بیٹی بھی کرتی ہے۔ چند آخری لائنیں ملاحظہ کیجیے:’’عورتیں ایک تسلسل ہیں، ایک رابطہ ہیں… حیات اور کائنات کا، زمین اور آسمان کے اندر۔جیسے ہر دم چوں چوں کا ساز بجانے والی چڑیاں…فقط ایک گھونسلے کی لیے ہر دم جگہ ڈھونڈتی رہتی ہیں اور اکثر غلط جگہ پر گھونسلا بنا لیتی ہیں… بچا لیں تو بھی چلاتی ہیں۔ نہ بچا سکیں تو بھی شور مچاتی ہیں۔‘‘
وہ ایک ایسی مصنفہ ہیں جس نے عورت کو خود آگہی اور خود شناسی کا درس دیا۔ اپنی ذات کے اثبات کا موقع بھی فراہم کیالیکن انہوں نے اپنی تحاریر میں باغیانہ روش نہیں اپنائی۔ بلکہ جہاں ضرورت محسوس کی، اپنی ہیروئن کو سمجھوتے اور اپنی ذات میں لچک رکھنے کا رویہ دیا۔انھوں نے اپنے ناولز میں عورت کو وارننگ بھی دی کہ اس کی حد کہاں تک ہے اور کہاں سے مرد کی حد شروع ہوتی ہے۔کہتی ہیں:
’’عورت پامال ہونا پسند نہیں کرتی، صرف دل کے آگے ہار مانتی ہے۔ دل اسے کمزور کر دیتا ہے، اس کا دل ہمیشہ محبت اور مامتا کے آگے سر نگوں رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت کی نفی کرکے اور اس کو ذلیل کرکے اپنے آگے جھکایا جائے۔ اُسے جھکانے اور سجدے کروانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں، جب اس کی ہستی کو تسلیم کرلیا جائے تو بلی کی طرح آکر پاؤں میں بیٹھ جاتی ہے، پھر اگر ٹھڈا بھی لگائیں تو غراتی نہیں۔ محبت کے عہد کو نباہنے کے لیے اپنے نفس کی تربیت کرنا پڑتی ہے اور اپنی فطری جبلتوں کی مہار اپنے ہاتھ میں رکھنی پڑتی ہے۔‘‘
ان کی تحریر سے کوئی نہ کوئی سبق ضرور ملتا ہے۔ کسی عبرت کی شکل میں کہیں زندگی جینے کا سلیقہ۔ کہیں خود شناسی ملتی ہے اور کہیں مدمقابل کو سمجھنے کی حس متحرک ہوتی ہے۔
’’دانا رسوئی‘‘ ایک انتہائی مربوط کہانی ہے۔ ایسے ماحول اور سماج کی عکاسی ہے جہاں عورت کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کی عزتِ نفس کو اچھالا جاتا ہے۔وہ لہو لہان اپنی ہی روح کی کرچیوں پر پا برہنہ چلنے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔ مرکزی کردار اقلیم سلطانہ کی باطنی کیمسٹری اور دانا رسوئی کی معونیت سمجھنے کے لیے پورے ناول کا مطالعہ ضروری ہے۔ اقلیم سلطانہ سے موتیا بننے کا سفر اور پھر طیبہ بقائی کا سفر ایک عورت کے دکھ، درد، بے بسی اور مظلومیت کا ہر پل مجروح کردینے والا سفرہے۔ اس سفر کو مصنفہ نے نہایت حوصلے اور جرات سے بیان کیا ہے۔’’دانا رسوئی‘‘ کا انتساب ملاحظہ کیجیے۔
’’ہر اس عورت کے نام جو گھر کے اندر اور گھر سے باہر نسوانی وقار اور پندار کو سنبھالے ہوئے ہے۔‘‘
مصنفہ نے ناول ’’لگن‘‘ کا انتساب وطن عزیز کی بہو بیٹیوں کے نام کیا ہے جو ناول کے تحریر کیے جانے کا مقصد واضح کرتا ہے۔مرکزی کردار فلک ایک سطحی سوچ کی مالک اونچی سوسائٹی کی لڑکی ہے۔جس کی اپنے شو ہرآفاق سے نہیں بنتی بات علاحدگی تک پہنچتی ہے مگر پھر کچھ ایسے حالات رونما ہوتے ہیں کہ اُس کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔وہ اپنے سسرال میں اور شوہر کے دل پر راج کرنے لگتی ہے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔’’لگن‘‘وہی ناول ہے جس پہ پاکستان ٹیلی ویژن کے گولڈن زمانے میں ڈراما بنایا جا چکا ہے۔ اس دور میں اس ڈرامے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے جس میں ناول کی کہانی کا بڑا ہاتھ تھا۔
’’بہشت’‘بچے کی تربیت کے موضوع پر عمدہ کہانی ہے۔ایک ایسے بچے کی کہانی جس کی ماں نے اسے کبھی کسی برے کام کو کرنے سے منع نہیں کیا لیکن وہ اپنی باتوں سے اس کی تربیت اس طرح کر رہی تھی کہ وہ خود ہی کسی برائی میں نہ پھنس سکا۔ ہر برا کام کرنے سے پہلے اس کے سامنے اس کی ماں کی کہی باتیں آ جاتیں جو اسے خواہش کے باوجود برا کام کرنے سے بچا لیتیں لیکن جب اس کی اپنی بیوی ماں بنی تو اسے علم ہوا کہ اس کی اپنی ماں نے اس کی کس بہترین انداز میں پرورش کی تھی جس میں اس کی بیوی ناکام رہی تھی۔