سیدہ حنا
ایک شاعرہ، افسانہ نگار اور مدیرہ تھیں۔اُنہوں نے اپنے بھائی حامد سروش کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا سے ایک کامیاب اور معیاری ادبی پرچہ ’’ابلاغ‘‘ کے نام سے جاری کیا تھا۔اِس پرچے نے کسی قسم کی مالی معاونت اور اشتہارات کے بغیر قومی سطح پر اپنی پہچان بنائی اور ایک عرصہ تک ادب کی بے لوث خدمت کی۔سیّدہ حنا کا پہلا افسانہ ۱۹۵۶ء میںمولانا صلاح الدین احمد کے مشہور پرچے’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔مولانا نے افسانے پر مندرجہ ذیل نوٹ لکھ کر انہیں بے حد سراہا:
’’اُفقِ فن پر ایک ستارہ طلوع ہوا ہے ’’سیّدہ حنا‘‘، خدا کرے یہ ستارہ ستارہ ہی رہے۔شہاب بن کر آسمانی وسعتوں میں گُم نہ ہو جائے۔سیدہ حنا کا ’’‘خاکہ‘‘ اپنی ندرتِ تصور،صحتِ فکر اور خوبیٔ بیان کے اعتبار سے اُردو کے عظیم افسانوں میں ایک مقامِ امتیاز کا حق دار ہے اور فن کار نے افسانے کو ایک مکتوب کی صورت دینے جس ماہرانہ صنعت کا ثبوت دیا ہے مشرقی ادبیات میں اس کی مثال بنگال کی نام افسانہ نگار سیتا چٹر جی کے سوا کہیں نہیں ملتی۔ہمیں اُمید ہے کہ محترمہ حنا اپنے افکار کی ترتیب میں آئندہ اِس میں نکھار پیدا کرتی چلی جائیں گی۔‘‘
ادبی دنیا کے علاوہ اُن کی تخلیقات افکار، اوراق، اُردو زبان اورسیّارہ میں شائع ہوا کرتی تھیں۔
اُن کی کتابیں ’’پتھر کی نسل‘‘ اور ’’جھوٹی کہانیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ ایک ناولٹ بھی ’’تنہا اُداس لڑکی‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا تھا۔ ’’ایک لڑکی ایک لمحہ‘‘، ’’تھیٹر‘‘ اور ’’تازہ کھیپ‘‘ اُن کے اہم افسانے ہیں۔سیدہ حنا کے ہاں بہت سے مضامین ملتے ہیں۔اُن کی کامیابی یہ تھی کہ ذاتی کھ سکھ، کرب اور المیے کو اِس انداز سے پیش کیا کہ وہ معاشرتی اور سماجی المیے میں ڈھل گیا، جس سے مصنفہ کی قاری پر گرفت رہی اور نگارشات میں درد مندی اور تاثیر بھی پیدا ہوئی۔ اُن کے ہاںتعلیم یافتہ عورت کی جذباتی نا آسودگی نمایاں ہے۔کسی ادیب و شاعر کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے گردوپیش پائی جانے والی معاشی نا انصافیوں، سماجی ناہمواریوں اور طبقاتی کشمکش سے نظریں چرائے۔ ہمارے معاشرے کے یہ سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔اُنہوں نے اِس طبقاتی تفریق کے علاوہ عام زندگی میں ہماری منافقت،ریا کاری اور فریب کو بھی افسانوی شکل دی ہے۔