سیمیں کرن
گلبرگ،فیصل آباد میں مقیم سیمیں کرن حالیہ دور کی فکشن نگار ہیں۔ماضی قریب میں پاکستان اور پاکستان سے باہر فکشن کے منظر نامے میں انہوں نے بہت سرعت اور محنت سے اپنی جگہ بنائی ہے۔وہ کالم نگار کی حیثیت سے بھی اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
ادبی جرائد میں تسلسل کے ساتھ شائع ہونے کی وجہ سے نہ صرف اُن کوسنجیدہ قارئین کی ایک بڑی تعداد میسر ہے بلکہ صاحبانِ نقد و نظر پر بھی انہوں نے اپنا اعتبار قائم کیا ہے۔ اُن کا ادبی تخلیقی اثاثہ معیاراور مقدارکے حوالے سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ ’’شجر ممنوعہ کے تین پتے‘‘ اور ’’بات کہی نہیں گئی‘‘ کے علاوہ اُن کا ایک ناول ’’خوشبو ہے تو بکھر جائے گی‘‘ کے نام سے صاحبانِ ذوق کی توجہ حاصل کر چکا ہے۔وہ کہانی بنتی ہیں۔رفتہ رفتہ، نفاست کے ساتھ،ترتیب سے،رنگ بھرتی چلی جاتی ہیں اور اِس بات کا اہتمام کرتی ہیں کہ سارے نمایاں اور جزوی رنگ اپنی ترتیب قائم رکھیں تا کہ کوئی بالغ نظر یہ نہ کہے کہ یہ بنتر کسی اناڑی کے ہاتھ کا کمال ہے۔ انہیں بلا شبہ کردار نگاری، مکالمہ نویسی، منظر نگاری،پلاٹ کی بنتراور جزئیات کے بیان میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔اُن کے تخیل میں کوئی گرہ کوئی گنجلک نہیں ہوتی۔عصرِ رواں کی تیز رو زندگی میں جب ہم داستاں سے ناول اور ناول سے افسانے تک پہنچ چکے ہیں۔ابہام یا عدم ابلاغ لکھاری کے لیے زہرِ قاتل ہے۔وہ اِس بات سے بخوبی آشنا ہیں لہٰذا مکمل ابلاغ کے ساتھ قاری سے مخاطب ہوتی ہیں۔محترمہ سیمیں کرن ایک معمار کی طرح تعمیر میں مگن رہی ہیں،ایک دن شاہکار سامنے آنا تھا اور اب وہ ناول اور افسانوی مجموعوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔اُن کے اسلوب میں جزئیات کا بیان منفرد انداز میں واضح طور پر، کسی ابہام کے بغیر آتا ہے۔اس بیان میںایک طرف اُن کی قابلِ تعریف قوتِ مشاہدہ کا بڑا ہاتھ ہے تو دوسری طرف ناول نگاری کی ریاضت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ اُن کے محشرِ خیال سے ہر طرح کی کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔ویسے بھی انسانی زندگی نت نئے حوادث اور سانحات سے عبارت ہے۔ خاص طور پرہمارے ہاںحیاتِ جاوداں کو جس قدر حوا د ث کا سامنا رہتا ہے دنیا کے شاید ہی کسی معاشرے میں ہوتا ہو گا۔کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔دیکھنے والی آنکھ،سننے والے کان، محسوس کرنے والا دل اور کہانی کو کہانی کا روپ دینے والا ذہنِ رسا درکار ہوتا ہے۔جو رب العزت نے معاشرے کے چیدہ چیدہ افراد کو عطا کیا ہوتا ہے۔یہی افراد ادیب، شاعر اور فنکار کہلاتے ہیں۔سیمیں بھی معاشرے میں جنم لینے والی منفی و مثبت تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتی ہیںاور اُن کو باقاعدہ نگارشات کا روپ عطا کرتی ہیں۔اُن کے ہاں خواتین کے مسائل سے لے کر مذہبی طبقے کی منافقتوں کا اظہار دبنگ لہجے میں ملتا ہے۔ایک با شعور اور تعلیم یافتہ عورت کی نا آسودگی اگر درد مندانہ ہے تو مذہبی طبقے کے دوغلے پن اور منافقانہ رویے کو بھی جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
…..