اثر رامپوری ۔۔۔ وہ ان کا حجاب اور نزاکت کے نظارے

وہ ان کا حجاب اور نزاکت کے نظارے

آئے وہ شب وعدہ تصور کے سہارے

وہ کالی گھٹا اور وہ بڑھتے ہوئے دھارے

زاہد بھی اگر دیکھے تو ساقی کو پکارے

وہ جلوہ گہ ناز وہ مخمور نگاہیں

اب کیا کہوں یہ لمحے کہاں میں نے گزارے

خود حسن کا معیار ترا ذوق نظر ہیں

اتنے ہی حسیں آپ ہیں جتنے مجھے پیارے

بے وجہ نہیں حسن کی تنویر میں تابش

وہ دیتے ہیں خاکستر الفت کے شرارے

تم چاہو تو دو لفظوں میں طے ہوتے ہیں جھگڑے

کچھ شکوے ہیں بے جا مرے، کچھ عذر تمہارے

پھر جام بکف ہو گئی ہر چیز اثر آج

یاد آ گئے پھر مدھ بھری آنکھوں کے اشارے

Related posts

Leave a Comment