آفتاب خان … اگر یہ عشق مصیبت میں ڈالتا ہے مجھے

اگر یہ عشق مصیبت میں ڈالتا ہے مجھے
فلک سے آکے فرشتہ نکالتا ہے مجھے

میں روز ایک نئی بحر میں الجھتا ہوں
یہ کون شعر و سخن میں اچھالتا ہے مجھے

مرا شمار بھی ہوگا گناہ  گاروں میں
وہ جانتا ہے مگر پھر بھی پالتا ہے مجھے

میں زندگی میں کئی بار ڈگمگایا ہوں
مگر وہی تو ہمیشہ سنبھالتا ہے مجھے

قدم قدم پہ رکاوٹ کا سامنا ہے مگر
وہ امتحان سے کندن میں ڈھالتا ہے مجھے

بدن سے میل کسی طور اب اتر جائے
وہ اس لیے لبِ دریا کھنگالتا ہے مجھے

میں اس کے حسنِ تجلی سے آفتاب ہوا
مرا خلیق خدا  ہے اجالتا ہے مجھے

Related posts

Leave a Comment