زمیں سنولا گئی تھی، آسماں گہنا گیا تھا
قلم گم ہو گیا تھا اور دہن پتھرا گیا تھا
ہم اپنے منتشر سامان پر بیٹھے ہوئے تھے
نئی ترتیب کا پیغام غالب آ گیا تھا
بس اتنا یاد ہے ہم بالکونی میں کھڑے تھے
اور ان دیکھی زمینوں سے بلاوا آ گیا تھا
ہم اک بارہ دری کی سیڑھیوں پر سو گئے تھے
اور اک دریا ہمارے خواب سے ٹکرا گیا تھا
الجھ پڑتا تھا، اکثر بے سبب، بے وقت ہم سے
نظرانداز رہنے سے بدن سٹھیا گیا تھا
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...