سرِبازار ماضی ۔۔۔۔۔۔۔ یونس متین

سرِبازار ماضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر شب ِہجراں چلی
پھر شبِ ہجراں چلی گہنے پہن کر
درد کی مشاّطگی سے تابناک
اپنے ژولیدہ سوالوں کی طرف
شرم آگیں زندگی کے اُن حوالوں کی طرف
حافظے کی قید میں ہیں جو ابھی
جو ابھی تاریخ کے دیوارو در پر درج ہیں
یہ عجوزہ ہڈیوں کے کوسنے سہتی ہوئی
تین سو سالوں سے جیتی آرہی ہے درد کے انبوہ پر
تین سو سالوں کے ہاتھ
تین سو ہاتھوں کے سال
رینگتے ہیں اس کی زلف و چشم و لب پر بار بار
روح میں لرزاں غموں کا نم لیے
وقت کی بوڑھی رگوں میں
ہانپتے بے دم تنفس کا تثاقل

اور الم انگیز زیر و بم لیے
درد کی مشّاطگی سے تابناک
جس کے چہرے پر لکھی ہیں
تین سو سالوں کی بوڑھی جھر ّیاں
اپنے ماضی کے حسیں گہنے پہن کر
پھر سرِبازار آ نکلی ہے آج
اپنے بوڑھے عاشقوں کا دل لبھانے کے لیے
زیست کے تاریک کونوں کو سجانے کے لیے

Related posts

Leave a Comment