صبح کا عذاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفتر کا دروازہ
لرزاں
ٹیبل ویراں
فائل کھولوں تو پھٹ جائے
جیسے بم کا ایک دھماکہ
گھنٹی کی آواز
کلاشنکوف کی تڑتڑ تڑ تڑ سے بھی تیز
پنسل سے لکھوں تو جیسے
اک خونی تحریر
سانسوں میں بارود کی بُو
اور
ٹیلیفون کے تاروں میں ہے
چیختے انسانوں کا شور
سوچ رہا ہوں: ایسا کیوں ہے
میرے پائوں بوجھل کیوں ہیں؟
میری آنکھیں جل تھل کیوں ہیں؟
میں نے شاید
آج سویرے سب سے پہلے
تازہ اک اخبار پڑھا تھا
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...