افضل گوہر … جب تجھ سا اِس جہاں میں نہیں اور کوئی تھا

جب تجھ سا اِس جہاں میں نہیں اور کوئی تھا پھر کیسے مان لوں کہ حسیں اور کوئی تھا مٹی سے میں تو پھوٹ پڑا پیڑ کی طرح جو ہو گیا ہے رزقِ زمیں اور کوئی تھا بس خال و خد ہی بدلے گئے ہیں وگرنہ دوست کچھ دیر پہلے مجھ سا یہیں اور کوئی تھا وہ جس سے آئنے میں لڑائی ہوئی مری اندر کا آدمی تو نہیں اور کوئی تھا تُو نے مجھے لباس سے سمجھا ہے مطمئن بے چین مجھ میں اپنے تئیں اور کوئی تھا

Read More

افضل گوہر … نظم

نظم۔۔۔۔۔وصل کے جلتے دِیوں کی آنکھ میں اتری گلابی روشنیرات کی میلی سیاہی میں پڑی لمبی دراڑباہمی لذت بھری سرگوشیاںاور پھر خاموشیاںمطمئن ہوتے شکن آلود جسمانتہائی انبساطرفتہ رفتہ صبح کی پہلی کرن نے جاگ کر انگڑائی لیتیرگی نے دیکھنے کو روشنی کی آنکھ سے بینائی لیپیڑ پر بیٹھے پرندوں کی نگاہیں صحن پر مرکوز تھیںدانہ دانہ اُس کی زلفوں سے وفا کا باجرہ گرنے لگاوہ نہا کر آئی تو اتنی نشیلی ہو گئیبارشوں سے دن کی ساری دھوپ گیلی ہو گئی

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے، مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے

یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے، مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے کوئی دُور دراز کی چاپ نہیں، جو سکوت کے پار سے پھوٹتی ہے یہ جہانِ مجاز ہے عکس نُما، کسی اور جہاں کی حقیقتوں کا یہاں چاند اُبھرتا ہے پانیوں سے، دھنک آئنہ زار سے پھوٹتی ہے وہاں ساری شگُفت تضاد سے ہے، جہاں حیرتیں اوڑھ کے گھومتا ہوں کہیں پھول چٹان سے پھوٹتا ہے، کہیں آگ چنار سے پھوٹتی ہے نہ شمال و جنوب میں دیکھتا ہوں، نہ طلوع و غروب میں دیکھتا ہوں میں…

Read More

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ شاہد ماکلی

گریہ مرا وُضو ہے ، حضوری نماز ہے اب میں ہوں اور تصورِ شہرِ حجاز ہے باطن میں لو ہے ایک سراجِ منیر کی پتھر سا دل اِسی کی تپش سے گداز ہے بگڑے ہوئے اُمور سنور جائیں گے مرے اک دستِ مہربان مرا کارساز ہے وابستگی حریصُ علیکم سے ہے مری باطن میں اور طرح کا اک حرص و آز ہے اللہ مجھ کو عشق میں ثابت قدم رکھے اس راہ میں ہزار نشیب و فراز ہے

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ نمائشوں کے نمونے مصورانہ ہیں

نمائشوں کے نمونے مصورانہ ہیں یہ کائناتیں خدا کا نگار خانہ ہیں کوئی کنارہ  نہیں حیرتوں کی وسعت کا عجائبات کی دنیائیں بیکرانہ ہیں تمھارے خواب کے موتی تو یک گرہ ہوں گے ہمارے خواب کی مالائیں دانہ دانہ ہیں بہت سا وقت خدا کے بغیر کٹتا ہے بہت سے شام و سحر ہیں جو بے زمانہ ہیں گزرتا جاتا ہے شاہد ہمارا مستقبل  ابد سے ماضی کی جانب کہیں روانہ ہیں

Read More

فیصل عظیم ۔۔۔ اُٹھائے پھرتے ہو شباب کا بوجھ

اُٹھائے پھرتے ہو شباب کا بوجھاور اُس پہ مستقل عذاب کا بوجھپہاڑ  سر  پہ  کم  نہیں ، لیکنیہ آسمان جیسے خواب کا بوجھپلا دو  گھول  کر کوئی  تعویزکہاں ہم اور کہاں کتاب کا بوجھیہ پوری قوم جھُک  کے چلتی  ہےہے سر پہ کس قدر خضاب کا بوجھاُٹھائے  یا  بکھر کے  رہ  جائے ؟زباں پہ ہےکچھ اضطراب کا بوجھتمھاری بدگمانیوں  سے  سِوادلِ حزیں، وفا نصاب کا بوجھبناؤ  مت  خلوص   کی   تصویرگراں ہےآنکھ پر سراب کا بوجھتُو شکوہ سنج  ہے تو  کان  بھی رکھمیں پھینک ہی نہ دوں جواب کا بوجھشِکن  صدا …

Read More