نسیمِ سحر ۔۔۔ سہ سطریاں

پاکستان، جو ہم سب کی اُمّیدوں کا سرمایا ہے پاکستان، کہ جس سے ہم نے جو کچھ چاہا، پایا ہے ہم سے پوچھ رہا ہے، ہم نے اس کو کیا لوٹایا ہے؟ ٭ کبھی یہ غور تو کرناسبب ہے کیا اس کا؟ وفا کے ذکر پہ سب میری بات کرتے ہیں جفا کے ذکر پہ سب تیری بات کرتے ہیں ! ٭ شہر کے مرکزی چوراہے پر چاروں سگنل ہی سُرخ رہتے ہیں اور ٹریفِک بلاک رہتی ہے ! ٭ اب تو ایسا لگتا ہے جتنی سانسیں باقی ہیں اتنی…

Read More

وسیم جبران ۔۔۔ ویرانی سے خوف آتا ہے

ویرانی سے خوف آتا ہے دل میں کتنا سناٹا ہے ناممکن ہے جس سے ملنا دل بھی ملا تو کس سے ملا ہے میرے لبوں پر پھول کھلے ہیں جب بھی تیرا نام لیا ہے ہاتھ اٹھائے ہوں گے اُس نے رنگِ شفق یا رنگِ حنا ہے آفت آکر ٹل جائے گی ماں کے لب پر حرفِ دعا ہے اب تک دل میں خلش ہے اس کی اب تک دل جو کہہ نہ سکا ہے اب جو جلتا ہے سینے میں تیری یاد کا وہ شعلہ ہے جبرانؔ اُس کا…

Read More

“In the Name of the Mother” comes to Iranian bookstores

Neda Alizadeh Kashani is the translator of the book, which was first published in 2006. “In the name of the father”: marks the beginning of the sign of the cross whereas “In the Name of the Mother” marks the beginning of life: with these words Erri de Luca introduces a text steeped in poetry full of soil and wind, yet never refined high-sounding, but almost smelling of dates and salt. We all know the Blessed Virgin’s story and the Annunciation, the story of Joseph and the Holy Child born in…

Read More

Night of the Universe” named best in Asian Talents of Baku film festival

Directed by Ramin Farzaneh and Parisa Sedaiazar, the film tells the story of a man and a woman, who try to connect the gas to their home in severe winter weather, while their little daughter, Rana, wants her parents to give birth to her. The best director award in this section went to Nazila Azizi from Afghanistan for her film “Noonn”. The Baku International Short Film Festival wrapped up Thursday by announcing winners in different categories in the capital of the Azerbaijan Republic. “Techno, Mama” by Saulius Baradinskas from Lithuania…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ سید ریاض حسین زیدی

نعت کیا ہے بس آپ کی تعریف رب بھی کرتا ہے آپ کی توصیف اس نے قرآن آپ کو بھیجا وصف ِذاتی ہے اس کی یہ تصنیف نعت جب بھی ہے روح میں اتری مضمحل قلب کی ہوئی تالیف منصبِ نعت ہے مسیحائی دور کرتی ہے روح کی تکلیف نعت پڑھتے ہی نیکیاں جاگیں ہر برائی میں ہو گیٔ تخفیف جس بھی محفل میں ذکرِ احمد ہو آپ لاتے ہیں اس میں خود تشریف آپ کا جو بھی دم نہیں بھرتا حق رسی میں ہوا نحیف و ضعیف حسن نعت…

Read More

طلعت شبیر ۔۔۔ ایک دھڑکا سا لگا تھا شام سے

ایک دھڑکا سا لگا تھا شام سے دل بھی مشکل میں پڑا تھا شام سے کیا ہوا ، ہونے کو ہے پھر شہر میں میں بھی کیا کیا سوچتا تھا شام سے بارشوں میں غم بھی تازہ ہو گئے دل کا ہر اک دکھ ہرا تھا شام سے آ گیا سورج ہتھیلی پر لیے اک دیا ہی تو بجھا تھا شام سے پھر مسافت رہ گئی تھی دم بخود دل بھی جیسے آبلہ تھا شام سے یوں جدا مجھ سے ہوا تھا شام کو میں بھی کب اُس سے ملا…

Read More

عطا العزیز ۔۔۔ دو غزلیں

کس کس طرح سے مجھکو ستانا ہے سوچ لے ہے وقت کم جہان سے جانا ہے سوچ لے جس کو بجھا کے پھینک رہا ہے بوقتِ صبح پھر سے اسی دیے کو جلانا ہے سوچ لے اسکی حدوں سے دور نکلنا فضول ہے آخر اسی کے پاس ہی آنا ہے سوچ لے اس کے لیے تو کچھ نہیں صورت گری میاں کچھ دیر اس نے چاک گھمانا ہے سوچ لے سوتا ہے میٹرس پہ جو تکیے لگا کے تو آخر کو ایک اینٹ سرہانہ ہے سوچ لے دستِ ہنر سے…

Read More

انور شعور ۔۔۔ اگرچہ ترکِ تعلق سے دکھ بڑا پہنچا

اگرچہ ترکِ تعلق سے دکھ بڑا پہنچا اُسے بھی اور مجھے بھی سکون سا پہنچا ہزار وسوسے آئے دماغ میں تاہم کل انتظار تھا جس کا وہ آج آ پہنچا نہیں ملا کبھی یکمشت محنتانہ ہمیں ہمیشہ حصّہ ہمارا ذرا ذرا پہنچا عبادتیں تو بہت کی ہیں شیخ جی تم نے تمھاری ذات سے بندوں کو فیض کیا پہنچا مجھے جگا کے وہ آرام کر رہے ہوں گے مری دعا اُنھیں اے صبح کی ہَوا‘ پہنچا ہوئی تھی صرف غزل بھیجنے کی فرمایش مگر شعور بہ نفسِ نفیس جا پہنچا

Read More

عاطر عثمانی ۔۔۔ تماشے میں بڑے کردار میں ہیں

تماشے میں بڑے کردار میں ہیں پیادے جُبہ و دستار میں ہیں بَلا کے کرب کی شِہ سرخیاں آج بشر کی آنکھ کے اخبار میں ہیں وہ جل کر راکھ ہو جائیں گے آخر جو پیہم آگ سے تکرار میں ہیں مرا ہر لفظ ہے اک جاگتی رات کئی چِلّے مرے اشعار میں ہیں ہمارے خواب تک گروی ہیں عاطر تو گویا ہم کسی بازار میں ہیں

Read More

سید ریاض حسین زیدی ۔۔۔ ستم کی زد میں ہر اک روزگار دیکھا ہے

ستم کی زد میں ہر اک روزگار دیکھا ہے یہ حرفِ صدق مگر پائیدار دیکھا ہے سمندِ شوق ترا ہر قدم مبارک ہے کہ جب بھی دیکھا تجھے شہسوار دیکھاہے کوئی تو جا کے تغافل شعار سے کہہ دے خموش آنسوؤں کو شعلہ بار دیکھا ہے خیالِ یار کی سرشاریاں میسر ہیں نفس نفس میں انھیں مشکبار دیکھا ہے سکون بانٹتا ہے بے غرض جو راہی کو اسی شجر کو سدا سایہ دار دیکھا ہے یہ سب ہوائے محبت کا فیض ہے جو ریاض فریب کھا کے بھی دل پُر…

Read More