ارشد محمود ارشد ۔۔۔ زر پرستوں کے طرف دار نہیں بن سکتے

زر پرستوں کے طرف دار نہیں بن سکتے لاکھ چاہیں بھی تو ہم یار ، نہیں بن سکتے جائیے جا کے نگینوں کو پرکھنا سیکھیں آپ یوسف کے خریدار نہیں بن سکتے منزلیں دور سہی راستے پُرپیچ تو کیا مسئلے راہ کی دیوار نہیں بن سکتے یار سوچو کہ محبت میں کمایا کیا ہے ہم جو دو سے بھی اگر چار نہیں بن سکتے دستِ آذر کی مہارت کا اثر بولتا ہے ورنہ کہسار سے شہکار نہیں بن سکتے میری بیٹی میں تجھے علم کی دولت دوں گا بھائی ورثے…

Read More

ارشد محمود ارشد ۔۔۔ تیرے سنگ تھا موج میلہ اک برس

تیرے سنگ تھا موج میلہ اک برس اب گزاروں گا اکیلا ، اک برس زندگانی دیکھ میرا حوصلہ تجھ کو میں نے اور جھیلا اک برس وقت کی پونجی بچاتا کس طرح ہاتھ میں آیا نہ دھیلا اک برس جانے کس جانب بہا کر لے گیا تیری یادوں کا وہ ریلا ، اک برس اُس نے بھی آنکھیں بدل لیں آج کل میرے جذبوں سے جو کھیلا اک برس گُر بتاتا ہے مجھے وہ الاماں جو رہا تھا میرا چیلا اک برس اس بجٹ سے بھی ہمیں ارشد ملا پھر…

Read More

امجد اسلام امجد ۔۔۔ آتے پَل سے بیگانہ ہیں ہم اورتم اور وہ

آتے پَل سے بیگانہ ہیں ہم اورتم اور وہ ایک ادھورا افسانہ ہیں ہم اور تم اور وہ ہجر سمندر ، وصل کا لمحہ ، کیسے ماپ سکیں! اپنا اپنا پیمانہ ہیں ہم اور تم اور وہ باہر باہر جو بھی کچھ ہے سب ہے وہ بہروپ اندر سے تو ویرانہ ہیں ہم اور تم اور وہ سمٹے ہیں اک پیاس کے اندر ، ساغر ، ساقی، غم یعنی پورا میخانہ ہیں ہم اور تم اور وہ پڑے ہوئے ہیں شعر و سخن کی دیوی کے آگے جیسے کوئی نذرانہ…

Read More

امین کنجاہی ۔۔۔ نظم

چلو اک کام کرتے ہیں محبت عام کرتے ہیں بہت دکھ سہہ لئے دل نے نہیں رہنا اکیلے اب اکٹھے ساتھ چلتے ہیں نئے جیون میں ڈھلتے ہیں نہیں ڈرنا زمانے کے کسی تازہ فسانے سے بہت سے یار روکیں گے نئی دنیا بسانے سے نہ دل میں ڈر کوئی رکھنا ہمارے واسطے یارا تم اپنا در کھلا رکھنا

Read More

آفتاب محمود شمس ۔۔۔ نگاہِ شوق کے اب وہ سفر نہیں ہوتے

نگاہِ شوق کے اب وہ سفر نہیں ہوتے گلی ہے ایک، مگر باخبر نہیں ہوتے لپٹ ہی جائیں جہاں قمقموں سے شاخیں سب وہاں شجر پہ پرندوں کے گھر نہیں ہوتے نہیں ہے گھر سے وہ نسبت کہ غم ملے ہم کو خوشی کی بات ہے ، ہم دربدر نہیں ہوتے مرے ہی گائوں میں ہے صرف قید عورت ، یا ترے بھی دیس میں پریوں کے پر نہیں ہوتے یہاں تو لوگ بدلتے ہیں صورتیں ایسی چلیں گے ساتھ، مگر ہم سفر نہیں ہوتے

Read More

اصغر علی بلوچ ۔۔۔ مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے

مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے مرے بام و در تری خوشبوؤں کو ترس گئے مرے خواب زار اجاڑ کے ، مجھے مار کے کہاں خاک اوڑھ کے سو رہے ، کہاں بس گئے وہ جو سبز رت کے سحاب تھے جو گلاب تھے مرے دل کی دھرتی پہ آگ بن کے برس گئے وہ ترے فقیر کی جھونپڑی ہے یہیں کہیں وہ بلند بام عمارتیں ، وہ کلس گئے ترے بعد کوچہِ دلبراں کا یہ حال ہے سرِ رہگزارِ سلوک اہلِ ہوس گئے میں عجیب حالتِ…

Read More

میتھیو محسن ۔۔۔ تیری آنکھوں کے جو اشارے ہیں

تیری آنکھوں کے جو اشارے ہیں دید کو کافی یہ نظارے ہیں تو میرے آنسوؤں پہ طنز نہ کر چھو کے دیکھ آتشیں یہ دھارے ہیں چپ جو بیٹھے ہیں تیری محفل میں جانے کیسے دکھوں کے مارے ہیں وہی بدلیں گے اب نظامِ حیات لوگ جو مفلسی کے مارے ہیں اپنا حسن نظر نہ کھو محسن دیکھ تو ذرّے بھی ستارے ہیں

Read More

رضی رضوی ۔۔۔ کب تک جڑا رہوں گا میں اِس بیبسی کے ساتھ

کب تک جڑا رہوں گا میں اِس بیبسی کے ساتھ جینا غمِ جہان میں وہ بھی خوشی کے ساتھ نقصان اُس مقام پہ کافی مفید ہے بجھتی ہو اپنی پیاس جہاں تشنگی کے ساتھ ہے شکر آدمی کی ضرورت ہے آدمی ورنہ کسی کا ساتھ بھی کب ہے کسی کے ساتھ ہو ہی نہیں رہا تھا ترے زہر کا اثر آخر ہماری موت ہوئی زندگی کے ساتھ چپ رہ کے میرے کان کے پردے نہ پھاڑیے صاحب نہ شور کیجیے یوں خامشی کے ساتھ ہے اختیارِ عقل پہ غالب ضرورتیں…

Read More

فخر عباس ۔۔۔ چلتا ہی جا رہا ہے وہ دیوانہ، مست ہے

چلتا ہی جا رہا ہے وہ دیوانہ، مست ہے راہیں کھلی ہوئی ہیں کہ منزل پرست ہے حیلہ گری میں کٹ گئی حیلہ گروں کی شب جانا ہے جس کو، دیر سے سامان بست ہے کم لگ رہی ہیں راہ کی ساری رکاوٹیں عالی ہے جب سے حوصلہ، دیوار پست ہے پاکیزہ دل سے آتا ہے آنکھوں میں نور بھی روشن دماغ ہے تو وہ تنویر دست ہے پورے یقیں سے بھیجئے سانسوں کا قافلہ بے جان زندگی میں بھی امکان ِ ہست ہے قابل نہیں ہے دوستی کے اس…

Read More