سچ ہے کہ وہ برا تھا، ہر اک سے لڑا کیا لیکن اسے ذلیل کیا یہ برا کیا گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اتر پڑے بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اڑا کیا اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی…
Read MoreCategory: آج کی غزل
حفیظ جونپوری ۔۔۔ محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں ہم ان کو آزماتے ہیں وہ ہم کو آزماتے ہیں نہ گھٹتی شانِ معشوقی جو آ جاتے عیادت کو برے وقتوں میں اچھے لوگ اکثر کام آتے ہیں جو ہم کہتے نہیں منہ سے تو یہ اپنی مروت ہے چرانا دل کا ظاہر ہے کہ وہ آنکھیں چراتے ہیں سماں اس بزم کا برسوں ہی گزرا ہے نگاہوں سے کب ایسے ویسے جلسے اپنی آنکھوں میں سماتے ہیں کہاں تک امتحاں کب تک محبت آزماؤ گے انہی باتوں سے دل اہلِ…
Read Moreجوش ملیح آبادی ۔۔۔ پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
جوشؔ کی یہ غزل عشقِ بے خود، خرد شکنی، اور وجودی بے چینی کا آئینہ ہے، جہاں دل کی ہر دھڑکن میں ایک انقلاب انگڑائی لیتا ہے۔
الفاظ میں وہی آتش، وہی سیال تپش ہے جو جوش کے لہجے کو شعلۂ گفتار بنا دیتی ہے۔
شاعر، سرِ تسلیم خم کرنے میں بھی عارفانہ جرأت کا اعلان کر رہا ہے، گویا خاک میں بھی اکسیرِ حیات ملائی جا رہی ہو۔
زندگی کی آسائشوں سے بیزاری، اور دیوانگی کو سعادت جاننا، رندیِ عارفانہ کا نادر مظہر ہے۔
یہ غزل نہیں، حیات و کائنات کے طلسمات پر سوال اٹھاتی ہوئی ایک فکری زنجیر ہے، جس کی ہر کڑی شعور و وجدان سے پیوستہ ہے۔
قمر جلالوی ۔۔۔۔ آج کے دن صاف ہو جاتا ہے دل اغیار کا
آج کے دن صاف ہو جاتا ہے دل اغیار کا آؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کا رخ پہ گیسو ڈال کر کہنا بتِ عیار کا وقت دونوں مل گئے منہ کھول دو بیمار کا جاں کنی کا وقت ہے پھِرتی نہ دیکھو پتلیاں تم ذرا ہٹ جاؤ دم نکلے گا اب بیمار کا حرج ہی کیا ہے الگ بیٹھا ہوں محفل میں خموش تم سمجھ لینا کہ یہ بھی نقش ہے دیوار کا اس قفس والے کی قسمت قابلِ افسوس ہے چھوٹ کر جو بھول جائے راستہ…
Read Moreقمر جلالوی ۔۔۔ مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا محبت نہ کرتے تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے کہیں پائے نازک میں موچ آنہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے حساب…
Read Moreسید آل احمد ۔۔۔ جرمِ اخلاص کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے
جرمِ اخلاص کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے جب بھی آتی ہے تری یاد رُلا دیتی ہے بیکراں وقت کی اس کوکھ میں پلتی ہوئی سوچ اک نئی صبح کی آمد کا پتہ دیتی ہے سوچتا ہوں کہ کہیں تیرے تعاقب میں نہ ہو وہ اذیت جو مری نیند اُڑا دیتی ہے تیری تصویر مرے گھر میں جو آویزاں ہے خواب کو وہم کی تعبیر دکھا دیتی ہے غرقِ گردابِ مصائب مجھے کرنے والے! موجۂ کاہشِ جاں تجھ کو دُعا دیتی ہے ذہن آسیب زدہ سوچ کا پتھر ہے تو…
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں
ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں تمہارا نام ہر اک پیڑ پر لکھوں گا میں ہر ایک پیڑ پہ چڑھ کے تمہیں پکاروں گا ہر ایک پیڑ کے نیچے تمہیں ملوں گا میں ہر ایک پیڑ کوئی داستاں سنائے گا سمجھ نہ پاؤں گا لیکن سنا کروں گا میں تمام رات بہاروں کے خواب دیکھوں گا گرے پڑے ہوئے پتوں پہ سو رہوں گا میں اندھیرا ہونے سے پہلے پرندے آئیں گے اجالا ہونے سے پہلے ہی جاگ اٹھوں گا میں تمہیں یقین نہ آئے تو کیا…
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔۔ ساتھ رہتے اتنی مدت ہو گئی
ساتھ رہتے اتنی مدت ہو گئی درد کو دل سے محبت ہو گئی کیا جوانی جلد رخصت ہو گئی اک چھلاوا تھی کہ چمپت ہو گئی دل کی گاہک اچھی صورت ہو گئی آنکھ ملتے ہی محبت ہو گئی فاتحہ پڑھنے وہ آئے آج کیا ٹھوکروں کی نذر تربت ہو گئی لاکھ بیماری ہے اک پرہیز مے جان جوکھوں ترک عادت ہو گئی تفرقہ ڈالا فلک نے بارہا دو دلوں میں جب محبت ہو گئی وہ گلہ سن کر ہوئے یوں منفعل عاید اپنے سر شکایت ہو گئی دوستی کیا…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ گھُٹن کی آنچ میں جب سے جلا ہے
گھُٹن کی آنچ میں جب سے جلا ہے بدن ، پیہم اُدھڑتا جا رہا ہے نگاہِ نا رسا تک پر کھُلا ہے ہمارا درد ، پیوندِ قبا ہے پہن لے دام ، لقمے کی ہوس میں پرندہ عاقبت کب دیکھتا ہے اثر ناؤ پہ جتلانے کو اپنا سمندر ، ہم پہ موجیں تانتا ہے بھنویں جس کی ، کمانوں سی تنی ہیں قرابت دار وہ ، دربار کا ہے کسی کے ذوق کی تسکین ٹھہرا ہرن کا سر ، کہیں آ کر سجا ہے دیا جھٹکا ذرا سا زلزلے نے…
Read Moreنسیم سحر ۔۔۔ مَیں کیا بتاؤں کہاں مُجھ کو ہونا چاہیے تھا
مَیں کیا بتاؤں کہاں مُجھ کو ہونا چاہیے تھا وہاں نہیں ہوں جہاں مُجھ کو ہونا چاہیے تھا سوال مجھ سے ہؤا ہے، مَیں کیوں نہیں ہوں وہاں جواب یہ ہے کہ ہاں ، مُجھ کو ہونا چاہیے تھا یہ میرے عہد کی اَرزانیوں نے ظلم کیا وگرنہ اَور گراں مُجھ کو ہونا چاہیے تھا چلا تھا شوق سے جب منزلِ یقیںکی طرف وَرائے وہم و گماں مُجھ کو ہونا چاہیے تھا بڑی شدید تھی خاموشی صحنِ مسجد کی وہاں بوقتِ اذاں مُجھ کو ہونا چاہیے تھا قدم قدم پہ…
Read More