شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں تم سلامت رہو ہم تو یہ دعا کرتے ہیں پھر مرے دل کے پھنسانے کی ہوئی ہے تدبیر پھر نئے سر سے وہ پیمان وفا کرتے ہیں تم مجھے ہاتھ اٹھا کر اس ادا سے کوسو دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ دُعا کرتے ہیں ان حسینوں کا ہے دنیا سے نرالا انداز شوخیاں بزم میں خلوت میں حیا کرتے ہیں حشر کا ذکر نہ کر اس کی گلی میں واعظ ایسے ہنگامے یہاں روز ہوا کرتے ہیں لاگ ہے ہم سے…
Read MoreTag: اردو ادب
ماجد صدیقی ۔۔۔ کب مہاجن نجانے بگڑنے لگیں
کب مہاجن نجانے بگڑنے لگیں کب کھڑی کھیتیاں پھر اُجڑنے لگیں منصفوں میں بھی ہے پھُوٹ یوں عدل پر سوتنیں جیسے باہم جھگڑنے لگیں کیا خبر مان لیں کیا، خداوند اور کون سی بات پر آ کے اَڑنے لگیں پھر نہ ماجد بدن زد پہ ژالوں کی ہوں پھر نہ پہلی سے کھالیں اُدھڑنے لگیں
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ اور کوئی چارا نہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی
اور کوئی چارا نہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی اس کے رہے ہو کے ہم جس سے محبت نہ تھی اتنے بڑے شہر میں کوئی ہمارا نہ تھا اپنے سوا آشنا ایک بھی صورت نہ تھی اس بھری دنیا سے وہ چل دیا چپکے سے یوں جیسے کسی کو بھی اب اس کی ضرورت نہ تھی اب تو کسی بات پر کچھ نہیں ہوتا ہمیں آج سے پہلے کبھی ایسی تو حالت نہ تھی سب سے چھپاتے رہے دل میں دباتے رہے تم سے کہیں کس لیے غم تھا…
Read Moreجوش ملیح آبادی ۔۔۔ ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو
ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو اک آہ تو نکلے توڑ کے دل نغمے نہ سہی جھنکار تو ہو ہر سانس میں صدہا نغمے ہیں، ہر ذرے میں لاکھوں جلوے ہیں جاں محوِ رموزِ ساز تو ہو دل جلوہ گہہِ انوار تو ہو شاخوں کی لچک ہر فصل میں ہے ساقی کی جھلک ہر رنگ میں ہے ساغر کی کھنک ہر ظرف میں ہے مخمور تو ہو سرشار تو ہو کیونکر نہ شبِ مہ روشن ہو کیوں صبح نہ دامن چاک کرے کچھ وصفِ رموزِ…
Read Moreادا جعفری
پیام زندگیٔ نو نہ بن سکیں صد حیف یہ اُودی اُودی گھٹائیں، یہ بھیگی بھیگی بہار
Read Moreراحت اندوری
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
Read Moreآغا حجو شرف
پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں گریباں چاک کر دیتے ہیں، بے دامن بناتے ہیں
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ ہر شے مجھے نصیب ہے، پھر بھی سُکوں نہیں
ہر شے مجھے نصیب ہے، پھر بھی سُکوں نہیں کیا یہ فشارِ ذات ہے، کیا یہ جُنوں نہیں شاید کہیں قرار مِلے مجھ فقیر کو شاید کسی کا ہو سکوں، اپنا تو ہُوں نہیں الزام آ رہا ہے مِری بے نوائی پر تو کیا مَیں اب جواب میں کچھ بھی کہوں نہیں پہچاننے لگے ہیں سبھی آئنے مجھے اب اور اِس نواح میں شاید رہوں نہیں پیروں تلے زمین ہے پانی بَنی ہوئی سر پر جو آسمان ہے وہ بے ستوں نہیں مَیں روشنی پہ داغ ہوں وہ میری ذات…
Read Moreراحت اندوری
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
Read Moreنجیب احمد
ہم تو سمجھے تھے کہ چاروں در مقفل ہو چکے کیا خبر تھی ایک دروازہ کھلا رہ جائے گا
Read More