بانی

شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ او ستم گر! تو بڑا دشمنِ جاں ہے سب کا

او ستم گر! تو بڑا  دشمنِ جاں ہے سب کا کوئی بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے سب کا ہے تو اک شخص کے ہونٹوں پہ ترا قصّۂ غم شاملِ قصّہ مگر دودِ فُغاں ہے سب کا آ بھی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے اب یہی خانۂ غم کنجِ اماں ہے سب کا اک چمک سی نظر آ جائے، تڑپ اٹھتے ہیں حسن کے باب میں ادراک جواں ہے سب کا ایک اک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں کیا چھپائے گا کوئی، حال عیاں ہے…

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ تنہا تھا مثلِ آئنہ تارہ، سرِ اُفق

تنہا تھا مثلِ آئنہ تارہ ، سرِ اُفق اُٹھتی نہ تھی نگاہ دوبارہ ، سرِ افق سب دم بخود پڑے تھے خسِ جسم و جاں لیے لہرا رہا تھا کوئی شرارہ سرِ افق اک موجِ بے پناہ میں ہم یوں اُڑے پھرے جیسے کوئی طلسمی غبارہ سرِ افق کب سے پڑے ہیں بند زمان و مکاں کے در کوئی صدا نہ کوئی اشارہ سرِ افق سب کچھ سمیٹ کر مرے اندر سے لے گیا اک ٹوٹتی کرن کا نظارہ سرِ افق

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف

سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف مری ایک ذاتِ دگر کی طرف بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف مرے واسطے جانے کیا لائے گی گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرح کوئی درمیاں سے نکلتا گیا نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف تری دشمنی خود ہی مائل رہی کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں کسی منزلِ پُر خطر کی طرف

Read More

بانی ۔۔۔۔ میں ایک بے برگ و بار منظر کمر برہنہ میں سنسناہٹ تمام یخ پوش اپنی آواز کا کفن ہوں

میں ایک بے برگ و بار منظر کمر برہنہ میں سنسناہٹ تمام یخ پوش اپنی آواز کا کفن ہوں محاذ سے لوٹتا ہوا نیم تن سپاہی میں اپنا ٹوٹا ہوا عقیدہ اب آپ اپنے لیے وطن ہوں میں جانتا تھا گھنے گھنے جنگلوں کے سینے میں دفن ہے جومتاعِ نم وہ کسی طرح بھی نہ لا سکوں گا میں پورے دن کی چتا جلا کر چلا ہوں گھر کو کہ جیسے سورج کے پیٹ میں ٹوٹتی ہوئی آخری کرن ہوں مرا کوئی خواب تھا جسےمیں سجا چکا ہوں بڑی نفاست…

Read More

پناہ کہیں ۔۔۔۔ بانی

پناہ کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ شب کی آوارہ ہوا ایک ڈائن کی طرح! آسمانوں سے چرا لائی ہے گم گشتہ صدائیں عرصۂ آفاق کا تاریک شور اجنبی دیسوں کے پیڑوں سے اُڑا لائی ہے پتے سسکیاں بھرتے ہوئے تھک چکی ہے اور باقی شب سکوں سے کاٹنے کے واسطے چاہتی ہے اپنے شانوں سے اُتارے زہر آلودہ صدائوں، چیختے پتّوں کا بوجھ! ڈھونڈتی ہے کوئی دروازہ کھلا کوئی کھڑکی ادھ کھلی کوئی بستر جو کسی کے واسطے خالی پڑا ہو! …………………… ( حرف معتبر)

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے

تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے سب واقعے ہمارے لیے دردناک تھے اندازِ گفتگو تو بڑے پر تپاک تھے اندر سے قربِ سرد سے دونوں ہلاک تھے ٹوٹا عجب طرح سے طلسمِ سفر کہ جب منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے اب ہو کوئی چبھن تو محبّت سمجھ اسے وہ ربط خود ہی مٹ گئے جو غم سے پاک تھے ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے

Read More

روایت ۔۔۔۔۔۔ بانی

روایت ۔۔۔۔۔۔ گھر کی محدود وسعت میں اُڑتی ہوئی دُھول کی تتلیاں بیٹھتی ہیں کبھی ریڈیو پر ۔۔۔۔۔ کبھی کرسیوں کے سکوں بخش آغوش میں! آئینہ سے ہٹا دیں اگر تو کتابوں کے شانوں پہ سو جائیں گی دُھول کی تتلیاں۔۔۔۔۔۔۔ تا ابد گھر کے اندر رہیں گی ۔۔۔۔۔۔۔ اگر روشنی ان کو باہر بلائے تو یہ مسکراتی رہیں گی دریچے کے پاس!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (حرفِ معتبر)

Read More

ہر جادۂ شہر ۔۔۔۔۔۔ بانی

ہر جادۂ شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر کی اک اک سڑک پھانکتی آئی ہے لاکھوں حادثوں کی سرد دُھول جانے کتنے اجنبی اک دوسرے کے دوست بننے سے کنارہ کر گئے اور کتنے آشنائوں کے دلوں سے مٹ گئ پہچان بھی! سو نگاہیں —- لاکھ زخم چار سمتی لاکھ جھوٹ! سو تماشوں کے پڑے ہیں جا بہ جا دھبے جنھیں گردِ مسافت میں چھپانے کے لیے برق پا لمحوں کو تھامے دوڑتے جاتے ہیں ہم! لمحے دو لمحے کو — دم لینے کی خاطر— سُست ہو جائیں مگر شہر کی اک اک…

Read More

بانی

چلو، رسمِ وفا ہم بھی اُٹھا دیں کوئی دن شہر میں چرچا رہے گا

Read More