بانی ۔۔۔۔ تیرگی بلا کی ہے، میں کوئی صدا لگاؤں

تیرگی بلا کی ہے، میں کوئی صدا لگاؤں ایک شخص ساتھ تھا، اُس کا کچھ پتا لگاؤں بہتے جانے کے سوا، بس میں کچھ نہیں تو کیا دشمنوں کے گھاٹ ہیں، ناؤ کیسے جا لگاؤں وہ تمام رنگ ہے، اس سے بات کیا کروں وہ تمام خواب ہے، اُس کو ہاتھ کیا لگاؤں کچھ نہ بن پڑے تو پھر ایک ایک دوست پر بات بات شک کروں، تہمتیں جُدا لگاؤں منظر آس پاس کا ڈوبتا دکھائی دے میں کبھی جو دور کی بات کا پتا لگاؤں ایسی تیری بزم کیا،…

Read More

بانی ۔۔۔۔ جادو گری اس پر کسی صورت نہ چلے گی

جادو گری اس پر کسی صورت نہ چلے گی اے عشق، تری سعیِ متانت نہ چلے گی مجھ سا ترا دشمن بھی یہاں کون ہے، کچھ سوچ دو روز بھی اپنی یہ عداوت نہ چلے گی خوابیدہ سے لہجے میں سنا لے ابھی قصّے وہ درد اٹھے گا کہ نزاکت نہ چلے گی تو اپنے غمِ ذات کو کیسے ہی بیاں کر اَوروں کی تراشیدہ عبارت نہ چلے گی جھلسی ہوئی اک راہ پہ آنے کی ہے بس دیر پھر ساتھ ترے گردِ مسافت نہ چلے گی بستی ہے مری…

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ پتّہ پتّہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم

پتّہ پتّہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم منظر کی خوش تعمیری کو لمحہ لمحہ دیکھو تم! مجھ کو اس دلچسپ سفر کی راہ نہیں کھوٹی کرنی میں عجلت میں نہیں ہوں، یارو! اہنا رستہ دیکھو تم آنکھ سے آنکھ نہ جوڑ کے دیکھو سوئے اُفق، اے ہم سفرو! لاکھوں رنگ نظر آئیں گے، تنہا تنہا دیکھو تم! آنکھیں چہرے پاؤں سبھی کچھ بکھرے پڑے ہیں رستے میں پیش روؤں پر کیا کچھ بیتی، جا کے تماشہ دیکھو تم کیسے لوگ تھے ٬ چاہتے کیا تھے کیوں وہ یہاں…

Read More

ن-م راشد کے انتقال پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بانی

ن-م راشد کے انتقال پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رات ہے کہ حرف و ہنر کا زیاں کدہ اظہار اپنے آپ میں مہمل ہوئے تمام اب میں ہوں اور لمحۂ لاہوت کا سفر محوِ دُعا ہوا مرے اندر کوئی فقیر سینے پہ کیسا بوجھ ہے، ہوتا نہیں سُبک ہونٹوں کے زاویوں میں پھنسا ہے– ‘‘خدا خدا‘‘ کیا لفظ ہے کہ جیبھ سے ہوتا نہیں ادا کم زور ہاتھ ہیں کہ نہیں اُٹھتے سُوے بام اظہار اپنے آپ میں زائل ہوئے تمام صرف آنکھ ہے کہ دیکھتی ہے چاند، نصف گول اے خامشی…

Read More

بانی ۔۔۔۔ اک دھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے اُفق تا اُفق

اک دھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے اُفق تا اُفق ہر گھڑی اک سماں ڈوبتی شام کا ہے اُفق تا اُفق کس کے دل سے اڑیں ہیں سلگتے ہوئے غم کی چنگاریاں دوستو! شب گئے یہ اجالا سا کیا ہے اُفق تا اُفق ہجر تو روح کا ایک موسم سا ہے جانے کب آئے گا سرد تنہائیوں کا عجب سلسلہ ہے اُفق تا اُفق سینکڑوں وحشتیں چیختی پھر رہی تھیں کراں تا کراں آسماں نیلی چادر سی تانے پڑا ہے اُفق تا اُفق روتے روتے کوئی تھک کے چپ…

Read More

آخری بس ۔۔۔۔ راجیندر منچندا بانی

آخری بس تیرتی سی جا رہی ہے شب کے فرشِ مرمریں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ شبنم آگیں دُھند کی نیلی گپھا میں! بس کے اندر ہر کوئی بیٹھا ہے اپنا سر جھکائے خستگی دن کی چبائے کیا ہوئی اک دوسرے سے بات کرنے کی وہ راحت وہ مسرت! آج دنیا ۔۔۔۔۔ آخری بس کی طرح محوِ سفر ہے سب مسافر قُرب کے احساس سے ناآشنا بیٹھے ہوئے ہیں اب کسی کو اجنبی ہونا بُرا لگتا نہیں ہے!

Read More