رعنائیِ خیال سے آگے کی چیز ہے
شعر و سخن کمال سے آگے کی چیز ہے
اے دوست تیرے عارض و رخسار کا یہ رنگ
یہ لال رنگ ، لال سے آگے کی چیز ہے
یہ زخم تیرے تیر یا تلوار کا نہیں
یہ زخم اندمال سے آگے کی چیز ہے
اک دن کسی صیّاد سے یہ صید نے کہا
زلفوں کا جال ، جال سے آگے کی چیز ہے
میں حسنِ لازوال بھی کیسے کہوں تجھے
تْو حسنِ لازوال سے آگے کی چیز ہے
دل کی دھمال اور ہی شے ہے مرے عزیز
دھڑکن کی تال ، تال سے آگے کی چیز ہے
لہجہ کچھ اور چیز ہے لفظوں سے ماورا
شاہد یہ بول چال سے آگے کی چیز ہے